امریکہ اور جاپان نے حال ہی میں ٹوکیو میں اعلی سطحی مذاکرات کا انعقاد کیا۔ کہنے کو تو یہ امریکہ جاپان بات چیت تھی ، لیکن مرکزی نکتہ چین رہا ۔ان مذاکرات کے مندرجات کے جائزے سے ظاہر ہوتاہے کہ امریکہ چین پر قابو پانے کے لئے اپنے اتحادیوں کو آمادہ کرنا چاہتا ہے۔
مشرقی بحیرہ چین سے لے کرجنوبی بحیرہ چین ، دیائو جزیرے ،آبنائے تائیوان ، سنکیانگ اور ہانگ کانگ کے امور تک ، دونوں ملکوں کی زیادہ تر بات چیت چین سے متعلق ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں ، دونوں فریقوں نے براہ راست چین کا نام لیتے ہوئے اعلان کیا کہ چین کے اقدامات “بین الاقوامی ترتیب کے مطابق نہیں ہیں۔ یہ بیان حقائق کے منافی اور چین کےاندرونی معاملات میں امریکہ اور جاپان کی مداخلت کا ایک اور واضح ثبوت ہے۔
اگرچہ اس مشترکہ بیان میں چین سے متعلق بہت سے امور کا تذکرہ کیا گیا ہے ، لیکن امریکہ اور جاپان کے خدشات اور دلچسپی میں فرق ہے ، اور مفادات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر ، امریکہ آبنائے تائیوان اور انسانی حقوق کے امور پر زیادہ توجہ دیتا ہے ، جبکہ جاپان جزائر دیائو کے معاملے پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ ہانگ کانگ کے اخبار داکونگ نے نشاندہی کی کہ اگرچہ امریکہ اور جاپان کچھ معاملات پر اتفاق رائے رکھتے ہیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دونوں ممالک کے مابین اتحاد ایک نئے مرحلے میں داخل ہوسکتا ہے۔
در حقیقت ، چین کے ایک قریبی ہمسایہ کی حیثیت سے ، جاپان کو چین کے ساتھ علاقائی معاشی انضمام اور معاشی و تجارتی تعاون سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ اگر جاپان چین پر قابو پانے کے لئے امریکہ کی حکمت عملی کا ساتھ دیتاہے تو یقینا اس کو اس کی بہت بڑی اقتصادی قیمت چکانی پڑے گی ۔
امریکہ اور جاپان سرد جنگ کی ذہنیت پر قائم ہیں ، جان بوجھ کر گروہ بندی اور محاذ آرائی میں مصروف ہیں ، اور چین مخالف اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہےہیںجو مکمل طور پر دور حاضر کے دھارے کے خلاف ہے۔ چین کی ترقی ایک چیلنج کے بجائے دنیا کے لئے ایک موقع ہے۔ اگر امریکہ اور جاپان اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے تو ان کا اتحاد چاہے کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو ، آخر کار رکاوٹ کی شکل اختیار کرے گا جو ان کی ترقی کو بھی محدود کرے گا اور علاقائی ترقی میں بھی انتشار پھیلائے گا۔