امریکہ ، جاپان ، ہندوستان اور آسٹریلیا کے اعلی رہنماؤں نے حال ہی میں ایک ویڈیو سمٹ کا انعقاد کیا۔ ان چاروں ممالک کے “چار فریقی میکانزم” کے قیام کے بعد یہ پہلا سربراہی اجلاس تھا۔ اگرچہ سمٹ کے بعد جاری کردہ بیان میں براہ راست چین کا ذکر نہیں کیا گیا ہے ، تاہم امریکہ کے کے نیشنل پبلک ریڈیو نے کہا ہے کہ یہ امریکی اتحادیوں کا اتحاد ہے جو “چین کے ساتھ محاذ آرائی کو گہرا کرتا ہے۔”تاہم تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ ” چار فریقی میکانزم” ایک بے سمت سیاسی تماشہ ہے ، اور اس کے سیاسی ارادوں کا ادراک کرنا مشکل ہے۔سب سے پہلے “چار فریقی میکانزم” میں یکجہتی اور مضبوطی نہیں ہے۔
امریکہ ، جاپان ، ہندوستان اور آسٹریلیا ہر ایک کے اپنے اپنے سیاسی مفادات ہیں۔ اس لئے امریکہ کے لئے چین کوقابو کرنے کے لئے دیگر تین ممالک کو آمادہ کرنا حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔ دوسرا ، معاشی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے، دیگر تینوں ممالک کے لئے امریکہ کا پوری طرح ساتھ دینا بہت مشکل ہے .بین الاقوامی برادری اس وقت جس چیز پر توجہ دے رہی ہے وہ موجودہ امریکی حکومت کا اپنے پیش رو کی پالیسیوں کو تبدیل کرنااور یہ دعویٰ ہے کہ “امریکی سفارت کاری واپس آچکی ہے۔” تاہم ، مختلف علامتوں کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کی نام نہاد کثیر جہتی دراصل ایک چھوٹی سی بند سیاسی گرو ہ بندی ہے جس کو “منتخب کثیرالجہتی” بھی کہا جا سکتا ہے۔”بین الاقوامی امور میں تمام ممالک کا کردار ہوتاہے ، اور دنیا کا مستقبل اور مقدر تمام ممالک کے ہاتھ میں ہے ۔” یہی وہ کثیرالجہتی ہے جس کی دنیا کو ضرورت ہے۔
اگر امریکہ کی زیرقیادت ” چار فریقی میکانزم” ” جعلی کثیرالجہتی” کے اصول کو تبدیل نہیں کرتا اور زمانے کے دھارے اور لوگوں کی مرضی سے انحراف کرتا ہے تو ناکامی یقینا اس کا مقد ر ہوگی۔