چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے کی ترقی اور وہاں کے عوام کی روز بروز تیزی سے بہتر ہوتی ہوئی زندگی کا براہ راست مشاہدہ کرنے والے لوگ اس حقیقت کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں کے رہائشی دنیا کے کئی ممالک اور علاقوں کے لوگوں سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ چند مغربی طاقتوں کو ان لوگوں کی یہ پرسکون زندگی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ مختلف بہانوں سے یہاں قائم امن کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
جب انہیں سنکیانگ کے دورے کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ لیکن جب سنکیانگ پر وہ رپورٹیں اور اعداد و شمار جاری کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ ان سے زیادہ سنکیانگ سے متعلق کوئی نہیں جانتا۔ سنکیانگ کے حوالے سے مغربی قوتوں کےنام نہاد اعداد و شمار اور تحقیقی رپورٹس کے پیچھے کون سی قوتیں کارفرما ہیں، یہ وہ سوال ہے جو ہر ذی شعور کو پریشان کرتا ہے۔ آزاد امریکی نیوز ویب سائٹ
“گرے زون” نے ان حقائق کا خلاصہ اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پیش کیا ہے۔”گرے زون” کی ویب سائٹ پر 18 فروری کو ایک مضمون شائع ہوا جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کے ” سنکیانگ میں اقلیتی قومیتوں کی نسل کشی” کے الزمات جن اعداد و شمار کی بنیاد پر جاری کئے گئے ہیں وہ ایک ایسی نام نہاد جعلی تحقیقی رپورٹ پر مبنی ہیں جو ایک دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے متعصب شخص چینگ گوئن نے
مرتب کی ہیں۔ چینگ گوئن امریکی خفیہ ایجنسی کے زیر انتظام کام کرنے والی ایک تنظیم سے منسلک رہ چکا ہے۔
امریکی نیوز ویب سائٹ ” گرے زون” نے تسلیم کیا ہے کہ چنگ گوئن کی رپورٹ میں شامل ڈیٹا مسخ شدہ معلومات کے سوا کچھ نہیں، رپورٹ میں سیاق و سباق سے ہٹ کر من گھڑت واقعات پیش کئے گئے ہیں۔ رپورٹ میں موجود تضادات مصنف کے مضموم مقاصد اور اس کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہیں۔ رپورٹ کے منطقی تجزیے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مصنف چین کے لئے بغض اور عناد رکھتا ہے اور چین مخالف قوتوں کے اعلیٰ کار کے طور پر کام کر رہا ہے۔ اسے سنکیانگ کے لوگوں کی بہتری سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ مصنف نے سنکیانگ کے حوالے سے افواہیں پھیلانے کے لئے مختلف حربے آزمائے، وہ اپنے تئیں لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب بھی رہا لیکن جھوٹ کتنی بھی صفائی سے ہی کیوں نہ بولا جائے جھوٹ ہی رہتا ہے۔ سچائی کو آشکار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
چینگ گوئن نے سنکیانگ میں لازمی نس بندی سے متعلق ایک نام نہاد تحقیقی رپورٹ پیش کی جسے بعد ازاں اس وقت کے امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے بھی اپنے ایک خطاب میں حوالے کے طور پر پیش کیا تھا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس اور سی این این سمیت کئی مغربی میڈیا نے اپنی خبریں اور رپورٹس چینگ گوئن کے مذکورہ دعوے کی بنیاد پر نشر کیں۔ “گرے زون” کے مطابق چینگ گوئن کی یہ نام نہاد تحقیقی رپورٹس نہ
تو کسی مستند سائنسی جریدے میں شائع ہوئی تھیں اور نہ ہی اس کے حوالے سے کسی ہم عصر ماہر نے کوئی تبصرہ یا تجزیہ پیش کیا تھا۔ لیکن اس وقت کے اعلیٰ امریکی عہدیدار اور بڑے میڈیا اداروں نے اس رپورٹ کی تصدیق کروانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ چینگ گوئن نے ایک رپورٹ میں دعوی کیا تھا کہ سال 2018 میں چین میں نس بندی کے کل کیسز کے 80 فیصد سنکیانگ میں ہوئے ۔ یہ سننے ہی میں غلط لگتا ہے۔
چین کی وزارت صحت کی “2019 صحت کے اعداد و شمار کی رپورٹ” کے مطابق سال 2018 میں سنکیانگ میں محض 8.7 فیصد لوگوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام میں حصہ لیا۔ چینگ گوئن کے نام نہاد تحقیقی مقالہ جات ایسے تضادات سے بھرے پڑے ہیں۔ امریکی نیوز ویب سائٹ “گرے زون” کی حالیہ رپورٹ اور سنکیانگ کا دورہ کرنے والی شخصیات کے تجربات کی روشنی میں عالمی برادری چین مخالف قوتوں کی سازشوں کو پہچان سکتی ہے۔ آج کی دنیا میں افواہوں اور جھوٹ سے حقائق کو مسخ نہیں کیاجا سکتا۔
بین الاقوامی برادری میں موجود اہل بصیرت سنکیانگ کی حقیقی صورتحال کو سمجھ چکے ہیں اور چینی حکومت کی سنکیانگ سے متعلقہ پالیسیوں کی تائید کرتے ہیں جس کا وہ مختلف عالمی فورمز پر برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ آج سنکیانگ کی تمام قومیتوں کے 25 ملین افراد کا یہ حق ہے کہ ان کی ترقی کی خواہش کا احترام کیا جائے۔ نام نہاد جھوٹی اور من گھڑت خبروں کی بجائے سنکیانگ کا حقیقی خوبصورت چہرہ دیکھا اور سمجھا جائے۔