حالیہ دنوں جب ڈبلیو ایچ او کے ماہر ین کی ٹیم نے چین میں نوول کورونا وائرس کے ماخذ کے بارے میں اپنی تحقیقات مکمل کیں تو ، “نیو یارک ٹائمز” اور دیگر مغربی ذرائع ابلاغ نے فوراً ہی افواہیں پھیلانا شروع کر دیں کہ “چین نے تحقیقات میں رکاوٹ ڈالی ہے” اور “چین نے اعداد و شمار شیئر کرنے سے انکار کردیا” ۔ رپورٹس جاری ہونے کے بعد ، ڈبلیو ایچ او کے ماہرین نے جلد ہی ان افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان
کےالفاظ میں تحریف کی گئی ہے۔
تیرہ فروری کو ، امریکی ایکولوجیکل ہیلتھ الائنس کے صدر اور ماہر حیاتیات ، پیٹرڈسزاک نے برہم ہو کر اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ : “نیویارک ٹائمز نہایت بے شرم ہے! ڈبلیو ایچ او کے مشن میں میرا یہ تجربہ نہیں رہاہے۔ جانوروں اور ماحولیاتی ورکنگ گروپ کے انچارج کی حیثیت سے ، میں یہ سمجھتا ہوں کہ چینی ساتھی کھرے اور قابل اعتماد ہیں۔ واقعی ہم نے نیا ڈیٹا حاصل کرلیا ہے ، اور ہم نے وائرس کے پھیلاؤ کے طریقے کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی ہیں ۔ “
نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کی ایک اور رکن، ڈنمارک کی طبی ماہر تھیا فشر کا ذکر بھی کیا گیا ہے، تھیا فشر نے پیٹر ڈسزاک کے ٹویٹ کے توسط سے کہا: ” ہماری ایپی ڈیمولوجی ٹیم نے چینی ساتھیوں کے ساتھ بہترین تعلق قائم کیا ہے، اور ہمارے مباحثوں میں چینی ساتھیوں کی بھر پورشمولیت رہی ہے۔ہم نے جو کچھ کہا، نیویارک ٹائمز نےجان بوجھ کر ان حقائق کو مسخ کیا ہے ، جس کی وجہ سے ہمارے سائنسی کام پر بدگمانی کے بادل منڈلانے لگے ہیں “۔
ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کی ٹیم کے دیگر ممبران نے بھی اس رپورٹنگ کے حوالے سے پیٹر ڈسزاک کے غصے جیسا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ ایکو ہیلتھ الائنس چائنا اور جنوب مشرقی ایشیا سائنس و پالیسی کے مشیر ہیوم فیلڈ نے اپنی ٹوئیٹ میں کہا کہ : “تعاون، باہمی اعتماد اور احترام ہے . نئی وبائی بیماریوں کی تحقیق کرنے والے سائنسدان کی حیثیت سے ، ہمیں فوری طور پر ان سیاسی لغویات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے . “
9 فروری کو ، ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کی ٹیم نے چین میں وائرس کے ماخذ کا سراغ لگانے کے حوالےسے اپنی تحقیقات مکمل کیں ، اور اسی دوپہر چینی ماہرین کے ساتھ ایک پریس کانفرنس منعقد کی۔ پریس کانفرنس میں ، دونوں فریقوں نے اتفاق کیا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ دسمبر 2019 سے پہلے ووہان میں وائرس پھیل گیا تھا ، اور یہ قیاس آرائی بالکل ممکن نہیں ہے کہ وائرس کا اخراج ووہان کی لیبارٹری سے ہوا
ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ماہرین نے بھی تحقیقات کے دوران چین کی مدد اور ان کے آزادانہ اور شفاف رویے کی بار بار تصدیق کی۔
ظاہر ہے کہ اس تفتیش کے نتائج نے کچھ امریکی ذرائع ابلاغ اور سیاستدانوں کو مایوس کردیا ہے۔ نو فروری کو امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے چین اور ڈبلیوایچ او کے ماہرین کے گروپ کو بدنام کیا۔
امریکہ کے اس طرزِ عمل کا ذکر کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے 10 فروری کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ چینی حکومت نے عالمی سطح پر وائرس کے ماخذ کا سراغ لگانے والی سائنسی تحقیق کے لیے ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کو چین آنے کے لیے بھرپور تعاون اور مدد فراہم کی ۔اس پربین الاقوامی ماہرین نے مثبت تبصرے کیے. چین ایک کھلے اور شفاف طرز عمل پر قائم رہے گا ، اور وائرس کے
ماخذ کا سراغ لگانے سے متعلق عالمی ادارہ صحت کے ساتھ قریبی رابطے اور تعاون کو برقرار رکھے گا۔ وانگ وین بین نے نشاندہی کی کہ متعدد ثبوت ، اطلاعات اور تجزیے ، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ وائرس 2019 کے دوسرے نصف حصے میں دنیا کے بہت سے مقامات پر موجود تھا ۔ امکان ہے کہ امریکہ میں کووڈ-۱۹ کے پہلے مصدقہ کیس سے پہلے ہی نوول کورونا وائرس امریکہ میں موجود ہے۔ہمیں امید ہے
کہ امریکہ بھی چین کی طرح آزاد اور شفاف رویہ اپنائے گا اور ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کو وائرس کے ماخذکا سراغ لگانے کے حوالے سے ہونے والی تحقیق کے لیے امریکہ آنے کی دعوت دے گا ۔