بنی نوع انسان کی پائیدار ترقی ایک ایسا خواب ہے جس کی جستجو ایک طویل عرصےسے جاری ہے۔ ہر انسان کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اسے زندگی کی تمام بنیادی آسائشیں دستیاب ہوں۔ وہ جس ماحول میں سانس لے وہ صاف ستھرا ہوا، اسے اچھا روزگاردستیاب ہو، اسے تعلیم و ترقی کے مناسب مواقع ملیں اور ضرورت پڑنے پر ایک محفوظ طبی نظام تک اس کی رسائی ہو۔ دنیا بھر کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس طرح کی پائیدار ترقی کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر کویقینی نہ بنایا جائے۔
گزشتہ صدی میں دنیا میں بہت زیادہ ترقی ہوئی جس کا سفر اب بھی جاری ہے۔ اس ترقی کا ایک تلخ پہلو یہ ہے کہ اس کے ثمرات دنیا کے چند ممالک کے چند مخصوص طبقات تک محدود رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترقی پزیر ممالک کی حکومتوں اور کمرشل بینکوں کی ترجیحات میں فرق ہونے کی وجہ سے بنیادی انفرااسٹرکچر کی تعمیر کےلئے فنڈزکی کمی رہی۔
چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ نے دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی صورت بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کا تصور پیش کیا جس میں دنیا کے تمام انسانوں تک ترقیاتی ثمرات کی منتقلی کو یقینی بنانے کی بات کی گئی۔ اسی دوران چین کی جانب سے16جنوری سن 2016 کو ایشین انفراسسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک باقائدہ طور پر فعال ہو گیا واضح رہے کہ اس بینک کے قیام کا اعلان25دسمبر 2015 کیا گیا تھا ۔ اس بینک کے قیام
کا مقصد حکومتوں اور کمرشل بینکوں کے درمیان ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز کی کمی کے خلا کوپر کرنا تھا۔ اس بینک نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے نجی شعبے میں موجود سرمایہ کاروں، مختلف ممالک کی حکومتوں اور کمرشل بینکوں کے ساتھ مل کرایسا نظام وضع کیا جس سے ترقی پزیر ممالک میں سرمائے کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ۔
یہ بینک جب شروع ہوا تو اس کے حلقہ احباب میں 57 ممالک شامل تھے۔ آج دنیا کے چھ براعظموں میں 103 ممالک اور علاقے اس بینک کے ساتھ ترقی کے سفر میں شریک ہیں۔ یہ بینک ورلڈ بینک کے بعد اپنے رکن ممالک کے اعتبار سے دوسرا بڑا کثیرالجہتی بینک بن چکا ہے۔
ابتدا میں کچھ ممالک کو یہ خدشہ تھا کہ چین ایک اہم شیئر ہولڈر ہونے کے ناطے ، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرے گا اور بینک کے فیصلے سازی کے عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اس بینک نے جلد ہی اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کردیا کہ یہ واقعی عالمی سطح کا ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جہاں کوئی بھی رکن ، چاہےاس کے پاس کتنے ہی حصص ہوں یا وہ کتنی ووٹنگ طاقت کا حامل ہو اسے مذاکرات کی میز پر دوسرے رکن ممالک کی رائے کا احترام کرنا ہوگا اور مذاکرات کے ذریعے آگےبڑھنے کا راستہ نکالنا ہوگا۔
اے آئی آئی بی کا سب سے بڑا شیئر ہولڈر ہونے کے باوجود ، چین شروع ہی سے کثیرالجہتی ترقیاتی بینکوں کے اصولوں کی پاسداری کرتا رہا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں اے آئی آئی بی کی ترقی چین کی بین الاقوامی ساکھ اور ایک ذمہ دار بڑے ملک کی حیثیت سے اس کا کردار ظاہر کرتی ہے۔ اے آئی آئی بی دیگر کثیرالجہتی ترقیاتی بینکوں جیسےورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی طرح کا ایک بینک ہے ۔لیکن اس میں ایک انوکھی بات یہ ہے کہ اس بینک میں احتساب کا کڑا نظام موجود ہے ۔ اس کی ایک اورخوبی یہ کہ دیگر بین الاقوامی اداروں کے برعکس ، کوئی بھی ملک ، چاہے وہ ممبر ہو یا نہ ہو ، اس بینک کی متعلقہ بین الاقوامی خریداری کی بولی میں حصہ لے سکتا ہے۔
ہر نئے منصوبے کے ساتھ اے آئی آئی بی کی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے ، جس کی وجہ سے اسے اسٹینڈ اینڈ پورز ، موڈیز اور فچ کی جانب سے اعلیٰ ترین کریڈٹ ریٹنگ ملتی ہے۔ بینکنگ نگران کی باسل کمیٹی اس کو صفر رسک والے ادارے کے طور پر مانتی ہے۔ نیز سخت داخلی آڈیٹنگ سسٹم کے پیش نظر اے آئی آئی بی میں بدعنوانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
کووڈ-19 کی وبا نے عالمی معیشت کو کساد بازاری کا شکار کر دیا ہے۔ انسداد وبا کےبعد معیشت کی تیز رفتار بحالی کے لئے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ناگزیر ہوگی۔ اے آئی آئی بی نے اس سلسلے میں بہت سارے تجربات جمع کیے ہیں۔گزشتہ پانچ برسوں میں اس بینک نے 108 منصوبوں کے لئے 22 بلین ڈالر سے زیادہ کے قرضوں کی منظوری دی ہے۔ یہ بینک مستقبل میں نئے عہد کے تقاضوں کے مطابق سبز ، ڈیجیٹل اور معاشرتی انفراسٹرکچر کی تعمیر پر اپنی توجہ مرکوز رکھے گا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ایشیا اور دنیا میں انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کا فرق بہت زیادہ ہے ۔ اے آئی آئی بی نجی سرمائے کوعالمی معیشت کی ماحول دوست ترقی کی طرف راغب کرے گا اور سال 2030 تک نجی شعبے سے بینک کو ملنے والی مالی اعانت کو پچاس فیصد تک لے جانے کی کوشش کرے گا۔