2020 دنیا کے تمام ممالک کے لئے ایک بہت مشکل سال تھا۔کووڈ-۱۹ کی وبا سال کے آغاز میں ہی سامنے آگئی تھی ۔ وبا کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کے لئے چین نے ایک انتہائی سخت لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی تھی۔ اس پالیسی کی وجہ سےچین میں وبا کا پھیلاؤ تو رک گیا لیکن سال 2020 کی پہلی سہ ماہی میں چین کی
شرح نمو میں 6٫8 فیصد کی واضح کمی آئی۔ تاہم ، ایسے وقت میں جب چین اپنی عوام اور دنیا کے لئے خدمات سرا نجام دے رہاتھا امریکہ نے چین کے ساتھ محاذ آرائی شروع کردی۔اس نے نہ صرف چین میں اپنے قونصل خانے کو بند کیا ، بلکہ چین پر مختلف حوالوں سے حملے شروع کردئیے۔ چین کے لئے وبا کا مقابلہ کرتے ہوئے امریکہ کے حملوں سے نمٹنا واقعی بہت مشکل کام تھا۔
تاہم ، جب چین کے ایک ارب چالیس کروڑ عوام ایک ساتھ متحد ہوجاتے ہیں تو ، ان کی طاقت لامحدود ہوتی ہے۔ چین کو اس وبا پر قابو پانے میں ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا ، اور شہر ووہان کو 76 دن میں دوبارہ کھول دیا گیا۔ چین کی قومی طاقت اور قائدانہ صلاحیتوں کا مکمل مظاہرہ کیا گیا ہے، اور پوری دنیا نے دیکھا
ہے کہ چین کتنا طاقتور ملک ہے۔ چین کے اس وبا سے لڑنے میں کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ اس وباء کے بھنور میں پڑنا شروع ہوگیا ہے ، اوراپریل میں ہی امریکہ میں نوول کورونا وائرس تیزی سے پھیلنے لگا۔ اب 10 ماہ گزر چکے ہیں۔ امریکہ میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اعدادوشمار کے مطابق17جنوری تک ، امریکہ میں کووڈ-۱۹ کے تصدیق شدہ کیسوں کی تعداد دو کروڑاڑتیس لاکھ نوے ہزار سے تجاوز کر گئی ہے ۔ اموات کی تعداد تین لاکھ ستانوے ہزار سے زیادہ ہے۔ انسداد وبا کی بری کارکردگی کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کی کارکردگی کیسی ہے؟ اندازے کے مطابق 2020 میں امریکی جی ڈی پی میں کم ازکم 3.6 فیصد تا 4.3 فیصد کی کمی آ ئی ہے۔ اس کے برعکس چین کے قومی محکمہ برائے اعدادو شمار کی جانب سے 18 جنوری کو جاری کردہ اعداد و شمارکے مطابق ، 2020 میں چین کا مجموعی جی ڈی پی ایک سو ٹرلین یوآن سےتجاوز کرگیا ہے ، اس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 2.3 فیصد کا اضافہ ہوا۔ یقیناً
، امریکہ کے یورپی اتحادیوں کی کارکردگی بھی امریکہ سے بہتر نہیں رہی۔ سال2020 میں جرمنی کے جی ڈی پی میں 5 فیصد کمی ہوئی ، اور فرانس اوربرطانیہ کی صورت حال اس سے بھی بدتر رہی ، جو بالترتیب 9.4 فیصد اور10.3 فیصد کمی کا شکار ہوئے ۔ چین کی کامیابیوں کی چند اہم وجوہات ہیں. پہلا، چین اپنے خود اختیار کردہ ترقیاتی راستے پر گامزن ہے اور خود کو مضبوط بنانے کےلیے دوسرے ممالک پر قابوپانے کے لئے دباؤ پر انحصار نہیں کرتا ہے۔
دوسرا، چین میں واقعتاً عوام کے مفادات کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ وبا کےآغاز پر ، چین میں پارٹی اور حکومت نے عوام کی زندگی کی حفاظت اور صحت کو اولین مقام پر رکھا۔ عوام کو ہر قیمت پر بچانے کے لئے ملک نے تمام وسائل صرف کر دئیے۔ تمام کام عوام کی زندگی کی حفاظت اور جسمانی صحت کے تحفظ کے لئے تھے۔ اس طرح کے فیصلے سے ایک ارب چالیس کروڑ افراد نہ صرف متحد ہوئے بلکہ وبا سے بھی محفوظ رہے۔
تیسرا، چین اپنے قومی اتحاد اور ادارہ جاتی برتری کی وجہ سے اپنے وسائل کا بہترین استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔چین میں وبا پھیلنے کے بعد ، ملک کے سربراہ سے لے کر عام لوگوں تک سب ایک ذہن سوچ کے ساتھ آگے بڑھےاور وبا کے خلاف کامیابی حاصل کی۔ دوسری جانب بڑی عالمی طاقت امریکہ میں
ان تمام خوبیوں کا فقدان نظر آیا جس نے امریکہ میں وبا کو ایک بڑے بحران میں تبدیل کر دیا اور امریکہ آج ایک سال گزر جانے کے باجود اس گرداب سے نہیں نکل پایا۔
چوتھا، چین ترقی کے لیے حقائق اور سائنس کے مطابق کام کرتا ہے۔ٹیکنالوجی کےلحاظ سے امریکہ ایک سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے۔ یقیناً یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے ۔ تاہم ، امریکہ سائنسی طریقہ کار پر کام کرنے والا ملک نہیں ہے۔ اگر آپ توجہ دیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ موجودہ وبا کے بعد ، اگرچہ اس وباسے لڑنے کے لئےچینی کمیونسٹ پارٹی اور حکومت کی قیادت میں کام کیا گیا ، لیکن اس کام کو انجام دینے کے لئے سائنسی طریقہ کار استعمال کیا گیا۔ اس جدوجہد میں سائنس دان اور پیشہ ور طبی عملے نے مرکزی کردار ادا کیا۔چین میں انسداد وبا کی تمام سرگرمیاں جن میں تکنیکی پہلو شامل ہیں ان کی قیادت متعلقہ شعبوں کے ماہرین نے کی ہے۔ اوپر سے نیچے تک چین کے تمام لوگوں نےسائنسی طریقہ کار کو اپنایا ، ہر شخص نے ماسک پہنا۔ ا س کے برعکس اگرامریکہ کو دیکھا جائے ، تو وائٹ ہاؤس کے چیف ماہر انتھونی فاؤچی نے کچھ کہنے کی ہمت نہیں کی۔صدر ٹرمپ عوام کو اپنے خیالات سے گمراہ کرتے رہے ، حتیٰ کہ انہوں نے کووڈ-19 کے خاتمے کے لئے لوگوں کو جراثیم کش ادویات تک پینے کا مشورہ دے دیا۔ماہرین اور سائنس دان اس وبا کے خلاف امریکہ کی لڑائی میں کہیں نظر نہیں آئے۔ ماسک پہننے پر بھی امریکی معاشرہ تقسیم نظر آیا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ امریکہ میں جدید سائنسی ٹیکنالوجی تو موجود ہے لیکن امریکی معاشرے میں سائنسی روح کا فقدان ہے۔