کووڈ۔۱۹ سے متاثر ہونے والے ایک امریکی شہری مائیکل جب 62 روز بعد اسپتال سے ڈسچارج ہوئے تو انہیں علاج پر آنے والے 1.12 ملین ڈالرز اخراجات کا بل موصول ہوا ، مائیکل جیسے دیگر کئی عام امریکی شہری ہیں جن کے پاس علاج معالجے کے لیے مالیاتی وسائل موجود نہیں ہیں اور وہ اسی باعث علاج معالجہ سےانکاری ہیں۔ پرنسٹن یونیورسٹی سے وابستہ ماہرین کے خیال میں امریکی طبی صنعت لوگوں کی صحت میں بہتری لانے کی بجائے طبی خدمات فراہم کرنے والوں کی دولت میں اضافے کا موجب ہے۔
دنیا کی دیگر ترقی یافتہ معیشتوں کے برعکس امریکہ میں تجارتی میڈیکل انشورنس اور سرکاری میڈیکل انشورنس کا ایک مخلوط نظام ہے۔ تجارتی میڈیکل انشورنس سے آبادی کا تقریباً ترپن فیصد حصہ فائدہ اٹھاتا ہے جبکہ سرکاری میڈیکل انشورنس سے مستفید ہونے والی آبادی تقریباً اڑتیس فیصد ہے جبکہ نو فیصد افراد ایسے بھی ہیں جنہیں طبی انشورنس سرےسے حاصل ہی نہیں ہے۔
کیسیل فیملی فاؤنڈیشن کے مطابق ، میڈیکل انشورنس کے باوجود کووڈ۔۱۹ میں مبتلا افراد کو بنا کسی طبی پیچیدگی کے اوسطاً تقریبا 9،800 ڈالرز بل ادا کرنا پڑتاہے ، طبی پیچیدگی کی صورت میں یہ لاگت 20،000 ڈالرز تک پہنچ سکتی ہے۔اعداد و شمار کے مطابق مہنگے علاج کی وجہ سے امریکہ میں ہر گیارہ میں سے ایک فرد کووڈ۔۱۹ کے علاج معالجے سے انکار کردیتا ہے۔
ملک میں متعلقہ مفاد پرست گروہ اپنے منافع کو سیاسی شراکت کے طور پر حاصل کرتے ہیں ، اپنے مفادات کے موافق طبی قانون سازی اور متعلقہ پالیسیوں کی لابنگ کرتے ہیں تاکہ زیادہ منافع حاصل کیا جاسکے۔ یہ ایک اہم وجہ ہے کہ امریکہ میں دونوں فریق طبی نظام میں اصلاحات سے گریزاں ہیں۔امریکہ میں جب تک پیسےکی سیاست تبدیل نہیں ہو جاتی اُس وقت تک عام شہریوں کے مفادات کا تحفظ ممکن نہیں ہے۔اسے ایک ایسا امریکی المیہ قرار دیا جا سکتا ہے جس میں منافع کےحصول کی بنیاد زیادہ سرمایہ ہے۔