سال 2020 ایک غیر معمولی سال رہا ہے ۔وبا ،تحفظ پسندی اور یکطرفہ پسندی سے نمٹنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟ حقائق کے تناظر میں چار برس قبل چینی صدر شی جن پھنگ نے ڈیوس میں اس کا جواب دیا تھا۔ سترہ جنوری دو ہزار سترہ کو جناب شی جن پھنگ نے ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں “عہد حاضر کی ذمہ داری کومشترکہ طور پر نبھانے،عالمی ترقی کو مل کر فروغ دینے” کے عنوان سے خطاب کیا۔انہوں نے پرزور الفاظ میں کہا کہ بنی نوع انسان ایک ہم نصیب معاشرہ ہے اورکھلی عالمی معیشت کو بھرپور طریقے سے آگے بڑھانا چاہیئے۔ چینی صدر کا عالمی اقتصادی ترقی کے لیے یہ ایک عمدہ فارمولہ ہے اور چین اسی پر عمل پیرا ہے۔
پندرہ نومبر دو ہزار بیس کو علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری معاہدے پر دستخط کیےگئے جس سے دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی زون وجود میں آیا ہے ۔دسمبر کے اواخرمیں چین ۔یورپ سرمایہ کاری معاہدے کے مذاکرات بھی مکمل کر لیے گئے ہیں۔اس کےعلاوہ کھلے پن کو وسعت دینے کے لیے چین کے اقدامات کا سلسلہ کبھی تھما نہیں ہے۔ گزشتہ سال چین میں مصنوعات اور سروس کی درآمدی مالیت میں اضافے کی رفتارعالمی اوسط معیار سے نمایاں رہی ہے۔بیرونی سرمایہ کاری کی منڈی تک رسائی کے لیےمنفی فہرست کی تعداد میں کمی ہوئی ہے ، آزاد تجارتی آزمائشی زونز کی تعداد اکیس تک پہنچ چکی ہے،دی بیلٹ اینڈ روڈ کی مشترکہ تعمیر میں مسلسل پیش رفت ہوئی ہے۔یہ تمام اقدامات چین کے کھلے پن کا تسلسل ہیں جو وبائی صورتحال کے پیش نظرعالمی معیشت کی بحالی کے لیے امید کی کرن ہے۔