متغیر وائرس کے سامنے گھبرا نا نہیں

0

حال ہی میں برطانیہ میں متغیر نوول کورونا وائرس کی دریافت کے بعد ، دنیامیں ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجنے لگی ہے ۔ دریافت کے صرف چندہفتوں بعد ہی ، چین ، امریکہ اور جنوبی کوریا سمیت دسیوں ممالک میں متغیرکورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کے کئی کیسز سامنے آچکے ہیں ۔
اگرچہ چین میں متغیر وائرس کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کے آثار نہیں ہیں ،لیکن ملک بھر میں تصدیق شدہ نئے کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو لوگوں کو یاد دلاتا ہے کہ اس وبا کا تاحال خاتمہ نہیں ہوا ہےاور اس پر قابو پانے کی فتح کافی دور نظر آ رہی ہے۔
حالیہ متغیر وائرس کے سامنے ، جس کے پھیلاؤ کی شرح گزشتہ وائرس سے 70 فیصد زیادہ ہے ، یہ فکر کرنا ناگزیر ہے کہ آیا موجودہ ویکسین اب بھی موثر ہیں یا نہیں۔ فی الحال ، یہ پریشانی دراصل غیر ضروری ہے۔ ڈاکٹرانتھونی فاؤچی ، جنہیں “امریکی انسداد وبا کا کپتان” کہا جاتا ہے ، نے حال ہی میں میڈیا پر واضح کیا کہ زیادہ تر متغیر وائرس ویکسین کے اثر کو متاثرنہیں کرے گا۔
دو ہزار بیس کے آغاز میں ، کووڈ-۱۹ کی وبا نے دنیا میں شدید خوف وہراس پھیلایا تھا۔اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ ہم اس وائرس کے بارے میں بہت کم معلومات رکھتے تھے۔ اس بارے میں معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ، وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے بہت سے مؤثر اقدامات دریافت ہوچکے ہیں ، اور وائرس کے خلاف بہت سی ادویات اور ویکسین بھی تیار کی جارہی ہیں۔اس لئے ، ہمیں پچھلے سال کی طرح گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ، کیوں کہ آج ہمارے پاس اس کو شکست دینے کے لئے مزید ہتھیار اورطریقے موجود ہیں۔
لیکن وبا کے خوف پر قابو پانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم آرام سے بیٹھ جائیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ بنی نوع انسان اور نوول کورونا وائرس کے مابین جدوجہد طویل اور لمبی ہوگی اور لمحہ بہ لمحہ فتح کا مطلب جنگ کا خاتمہ نہیں ہے۔ تاہم ، لاپرواہی کی وجہ سے وبا کی تیزی سے بحالی اور واپسی کاامکان موجود ہے۔ نوول کورونا وائرس کے خلاف یہ لڑائی تمام انسانیت کی مشترکہ جنگ ہے ۔کوئی بھی ملک الگ تھلک ہوکر وبا سےمحفوظ رہ نہیں سکتا۔ یہ نہ صرف انسان کے اعتماد اور ہمت کا ایک امتحان ہے بلکہ اس بات کا بھی امتحان ہے کہ کیا عالمی برادری متحد ہو کر اس وبا کا مقابلہ کرسکتی ہے یا نہیں؟ امید کی جا رہی ہے کہ دنیا کے تمام ممالک ، بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کے تحت ، ایک ایسا مشترکہ جواب دے پائیں گے جو تاریخ کو مطمئن کرتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here