دنیا مکافات عمل کی جگہ ہے آج آپ جوبیچ بوتے ہیں کل وہی کاٹتے ہیں۔اس بات کا اطلاق نہ صرف افراد پر ہوتاہے بلکہ قوموں اور ملکوں پر بھی ہوتاہے جو افراد، ممالک یا اقوام اعلی اقدار کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کو اچھا صلہ بھی ضرور ملتاہے اور جو افراد ،اقوام یا ممالک دوسرے افراد، اقوام یا ممالک کا برا سوچتے ہیں اور ان کے بارے میں برے اقدامات اختیار کرتے ہیں ان کا اثر ان پرخود بھی پڑتاہے۔ ان کی بری نیتیں اور برے اعمال خود ان کے پاس لوٹ کر آتے ہیں بلکہ بعض اوقات زیادہ شدت کے ساتھ لوٹ کر آتے ہیں ۔
آج جب ہم ا مریکہ کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اسی حقیقت کا ادراک ہوتاہے جو اوپر بیان کیا گیاہے۔امریکہ برسہا برس سے جو بیچ بوتارہاہے آج اس کی فصل کاٹ رہاہے۔ بین الاقوامی سطح پرتاریخ کے بیشتر حصے میںامریکہ کا کردار متنازعہ رہا ہے ۔ دو عالمی جنگوں سے لے کر سرد جنگ تک مشرق وسطی کے معاملات میں مداخلت سے جنوبی امریکہ کے ممالک میں سازشوں تک، مشرقی ایشیائی خطے میں مداخلت سے لے کر افغانستان کے اندر جنگی کاروائی تک امریکہ نے بڑی سطح پر ان علاقوں میں اپنی طاقت کا استعمال کیاہے،ان خطوں کے امن کو نقصان پہنچایاہے ، ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہے،وہاں کے عوام کو مشکلات سےدوچار کیا ہے اور بے پناہ مصائب کا سبب بنا ہے۔ امریکی رہنماوں کے نعرے بھی قوم پرستی پر مبنی رہے ہیں جیسے “امریکہ سب سے پہلے”، ” امریکی سب سے بہترین”۔ ان نعروں کے ذریعے یہ رہنما نہ صرف امریکیبرتری جتا تے رہے ہیں بلکہ اپنے تکبر کا بھی اظہار کرتے رہے ہیں ۔یہاں تک یہ بات محدود ہوتی تو ٹھیک تھا لیکن دوسروں کو خود سے کم تر سمجھنا اور جو خود صحیح لگتاہے صرف اسی کو حقیقت سمجھناکے رویے نے دوسری اقوام کو امریکہ سے دور ی پر مجبور کیا ہے۔ا مریکی رہنماوں نے دوسری اقوام اور ممالک کے خلاف نفرت کے بیچ بوئے ہیں۔ کبھی روس کو اپنا دشمن قراردیا ہے تو کبھی اسلام اور مسلمانوں کو اور حالیہ کچھ عرصے سے چین کے بارے میں یہی رویہ اپنائے ہوئے ہے۔
ایک لمبے عرصے سے امریکہ نے یہی پالیسی اختیار کر رکھی ہے دوسروں کو کم تر اور غلط سمجھنا اور اپنی مرضی دوسروں پر مسلط کرنا۔ حلانکہ مختلف ممالک اور قوموں کے اپنے حالات اور حقائق ہوتے ہیں، اپنی روایات ہوتی ہیں اپنی تاریخ ہوتی ہے ۔یہ ممالک ، علاقے ، خطے یا اقوام اپنے معروضی حالات، جغرافیے اور دوسرے حقائق کے مطابق اپنے نظام ترتیب دیتے ہیں اور ان کے مطابق اپنے امور چلاتے ہیں اور فیصلے کرتےہیں،جن کا احترام ہونا چاہیے ۔یہ ضروری نہیں کہ ایک ملک کے نظام یا حقائق کا دوسرے ملک پر اطلاق ہوتاہو۔ اگر دوسرے ممالک کی مدد کرنی ہے تو ان کے ساتھ یکجہتی اور ہمدردی کے احساس کے تحت ممکن ہے لیکن خود کو بالاتر سمجھ کر دوسروں کے ساتھ معاملات کرنا انصاف اور مساوات کے اصولوں کے بھی منافی ہے اور انتہائی غیر معقول بھی۔
امریکی رہنماوں نے ایک لمبے عرصے تک دوسروں میں خامیاں تلاش کرتے کرتے دوسروں پر انگلی اٹھاتے اٹھاتے دوسروں پر تنقید کرتے کرتے دوسروں پر الزام لگاتے لگاتے اور دوسروں سے نفرت کرتے کرتے اپنے ملک کے اندر نفرت کے اتنے بیج بو دیے ہیں کہ آج اس کی فصل تیار ہوکر پک گئی ہے۔آج ان رہنماوں کی نفرت کی آگ میں امریکہ خود جل رہاہے ۔ان رہنماوں نے دوسروں کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتے کرتے آج خود امریکہ کو انتشار اور تفریق کا شکار کردیا ہے۔ اگر امریکی رہنما برابری کی بنیاد پر دوسرے ممالک کی مدد کرتے، تعاون اور ہمدردی کے جذبے کےساتھ دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے معاملات چلاتے اور صرف امریکہ کی فکر کی بجائے سب کا خیال رکھتے تو شاید آج امریکہ میں حالات مختلف ہوتے ۔
امریکہ نے برسہا برس سے جو بیج بویا ہے آج اس کی فصل کاٹ رہاہے۔ حالات ایک دم سے خراب نہیں ہوتے لمبا عرصہ لگتاہے حالات کو ایک نہج پر پہنچتے پہنچتے ۔آتش فشاں یک دم نہیں پھٹتا بلکہ پھٹنے سے پہلے ایک لمبے عرصے تک پکتا رہتا ہے۔ جب امریکی رہنما دوسرے ممالک کے اندر تفریق نفرتیں اور تصادم پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے، دراصل اپنے ملک کے اندر ان منفی جذبات کی آبیاری کررہےتھے، اسی وجہ سے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا