دو ہزار بیس گزر چکا ہے جو دنیا کی تمام اقوام کے لئے ایک مشکل اور دشوار سال تھا اس سال درپیش تمام مشکلات کے باوجود چین میں وبا پر قابو پا لیا گیا ہے،معاشی ومعاشرتی سرگرمیاں بحال ہو چکی ہیں اور غربت کے خاتمے کا ہدف حاصل کر لیا گیاہے ۔یہ تمام ثمرات چینی کمیونسٹ پارٹی کے اس تصور کے تحت حاصل ہو سکے ہیں جس کے مطابق ہمیشہ عوامی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے اور خاص طور پر کمزور طبقات یا کم ترقی یافتہ علاقوں کی زیادہ مدد کی جانی چاہیئے۔دس جنوری کو اقوا م متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریز نے اپنی تقریر میں نشاندہی کی کہ عدم مساوات اور نا انصافی کو کم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیئے۔یہاں کہا جا سکتا ہے کہ”عوام کو ترجیح دینا”عدم مساوات اور ناانصافی کا حقیقی حل ہے۔
دوہزار بیس میں چین کو درپیش سب سے بڑا داخلی چیلنج وبائی صورتحال کا تھا۔ وبائی صورتحال اچانک خطرناک صورت حال اختیار کرنے لگی تھی ۔لیکن وبا سے لڑنے کےدوران چین نے ہر ایک زندگی کو بچانے کے لیے ہرممکن کوشش کی۔دوسرا چیلنج غربت کے شکار افراد کی مدد کا تھا۔غربت کے خاتمے کے لیے چینی حکمران پارٹی نے”ایک بھی غریب شخص کو تنہاہ نہ چھوڑنے” کے عزم کا اظہار کیا ۔ چین کے مختلف
پسمانہ علاقوں کی خصوصیات کے مطابق غربت کے خاتمے کے اقدامات اختیار کیےگئے۔ آمدورفت کو رواں دواں بنایا گیا ،جس کی بدولت مقامی مصنوعات بخوبی دوسرےعلاقوں تک منتقل کی جا سکتی ہیں۔پھر صنعتوں ،تعلیم ،سائنس و ٹیکنالوجی،صحت عامہ،حیاتیاتی تحفظ اور سیروسیاحت کو فروغ دیا گیا اور دشوار گزار علاقوں میں رہائش پذیرعوام کو آرام دہ مقامات تک منتقل کیا گیا۔ان مجموعی اقدامات سے غربت کے خاتمے کا
مشن پورا کیا گیا۔پھر شدید نوعیت کی بیماریوں کے شکار افراد کے لیے بھی چین کافی کوششیں کررہا ہے۔ ادویات کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ بات چیت کرنا سرکاری عہدہ داروں کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے ، ایسی کاوشوں سے شدید بیماریوں کے شکار افراد پر مالی بوجھ کم ہو رہا ہے۔ایسی کئی مثالوں سے دیکھا جا سکتا ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کس طرح عوامی فلاح و بہبود کو اپنا
مشن بنا کر ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور اسی عمل کی بدولت چین میں عدم مساوات اور نا انصافی میں کمی واقع ہور ہی ہے۔عالمی سطح پر دیکھا جائے ، تو چین نے کم ترقی یافتہ ممالک کی زیادہ مدد کرنے کے
ذریعے عدم مساوات اور ناانصافی کے حل کے لیے بھی بھرپور خدمات سرانجام دی ہیں ۔
چینی ریاستی کونسل کی جانب سے دس جنوری کو جاری “نئے عہد میں چین کے بین الاقوامی ترقیاتی تعاون ” کےعنوان سے وائٹ پیپر کے مطابق ، چین کے بین الاقوامی ترقیاتی تعاون میں ایشیا و افریقہ کے کم ترقی یافتہ ممالک اور “دی بیلٹ اینڈ روڈ ” سےوابستہ ترقی پزیر ممالک کو ترجیح دی جارہی ہے۔ دوسری طرف ،چین نے کووڈ-۱۹ کی وبا کے شکار ممالک کو اپنی صلاحیت کے مطابق مدد و حمایت فراہم کی ہے اور اب بھی
کر رہا ہے ۔اسی دوران کمزور ممالک چین کی اولین ترجیح رہے ہیں۔ایشیا،افریقہ اورلاطینی امریکہ کے کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے ، چین کی طرف سے زیادہ حفاظتی سازوسامان بھیجا جا رہا ہے،قرضوں کو معاف کیا جا رہا ہے اور ویکسین کی دستیابی کوآسان بنانے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ، موسمیاتی تبدیلی سمیت عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے چین بھرپور خدمات سرانجام دے رہا ہے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مختلف ممالک کے ساتھ چین کا تعاون یا امداد ،ہمیشہ سے مختلف ممالک کے اقتدار اعلیٰ اور ترقیاتی راستے کے انتخاب کرنے کے حق کے احترام کی مبنی رہی ہے،اس کی کوئی اضافی سیاسی شرائط نہیں ہیں اور نہ ہی دوسرے ممالک کےاندرونی معاملات میں چین کی جانب سے کوئی دخل اندازی کی گئی ہے ۔ بین الاقوامی تعلقات میں چین کا طرز عمل بھی عدم مساوات اور نا انصافی میں کمی کا ضامن ہے۔