امریکہ میں نام نہاد اظہار رائے کی آزادی اور اس کی حقیقت

0


واشنگٹن پوسٹ کے مطابق  امریکی رہنماؤں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے لے کر مئی ۲۰۲۰ تک سوشل میڈیا پر ۱۸۰۰۰ سے زائد “غلط یا گمراہ کن معلومات” شائع کی ہیں ، جن میں سے ۳۳۰۰ سے زیادہ پوسٹس توصرف ٹویٹر پر شیئر کی گئی ہیں۔
امریکہ کے حالیہ عام انتخابات کے نتائج کے بعد ، ٹرمپ نے بار بار اپنےحامیوں کو ٹویٹر پر “ایکشن” میں آنے کا کہا  اور ان سے واشنگٹن میں احتجاج کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان خطرناک اوراشتعال انگیز بیانات کےجواب میں امریکی سوشل میڈیا کے منتظمین لاتعلق رہے، اور  ان کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا حتی کہ کیپٹل ہل پر پُرتشدد حملے  جیسا واقعہ پیش آگیا ۔
لوگ  دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت جب کہ  امریکی رہنما کی مدتِ صدارت ختم ہونے میں  دس دن سے بھی کم وقت رہ گیا ہے ، ایسے میں کیپٹل ہل جیسےواقعے کا اثر یہ ہوا ہے کہ امریکی پولیس نے فوری طور پر ایکشن لیتےہوئے ہنگامہ آرائی میں شامل   کم از کم 82 مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسکی نے فوج کو کہا ہے کہ وہ اس بات کو  یقینی بنائیں کہ صدر  کے لیے جوہری ہتھیاروں کا استعمال ممکن نہ ہو  ۔امریکی کانگریس نے گیارہ تاریخ کو صدر کے خلاف دوسرا مواخذہ شروع کیا ہے۔ایسے سیاسی ماحول میں  مین سٹریم سوشل میڈیا  نے ٹرمپ کے اکونٹس پرمستقل پابندی لگا کر ” صدر ‘ کو خاموش کروا دیاہے۔ جیسا کہ ہسپانوی اخبار”لی مونڈے” نے تبصرہ کیا  کہ امریکی سوشل نیٹ ورک کو آزادانہ مواصلات کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ سمجھا جانا تھا ، لیکن یہ غلط معلومات پھیلانےاور سیاسی ہیرا پھیری کرنے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے ۔
اس سے لوگوں کو یہ بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ نام نہاد امریکی”اظہارِ رائے کی آزادی ” صرف عہدے پر منحصر ہے ، لیکن طاقت ورامریکیوں کے لیے  یہ ایک سیاسی آلہ ہے کہ جس کے ذریعے وہ داخلی طورپر اختلافات کو دبائے اور مخالفین پر  حملے کرنے کے لیے استعمال کرتےہیں ۔

SHARE

LEAVE A REPLY