نو تاریخ کو سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے کی طرف سے منعقدہ پریس کانفرنس میں مقامی حکومت کے دفتر اطلاعات کے ترجمان نے جرمن نامہ نگار کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سنکیانگ شہریوں کے مذہبی عقائد کی آزادی کے حق کی مکمل حفاظت کرتا ہے۔
انہوں نے تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ چین کے آئین میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ”عوامی جمہوریہ چین کے شہریوں کو مذہبی عقیدے کی آزادی ہے”۔ سنکیانگ نے مذہبی امور کے حوالے سے مقامی قواعد و ضوابط بھی مرتب کیے ہیں۔ یہ سب شہریوں کے مذہبی عقیدے کی آزادی کے حق کی ضمانت کے لئے ایک قانونی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ سنکیانگ میں 103 اسلامی ایسوسی ایشنز ہیں جو اندرونی مذہبی امور کو مربوط اور حل کرنے کے لئے ذمہ دار ہیں۔ مذہبی گروپ اور عام شہری مذہبی مقامات اور ان کے اپنے گھروں میں عبادت ، روزہ ، اور مذہبی تہواروں سے متعلق مذہبی سرگرمیوں کا اہتمام کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی تنظیم یا فرد مداخلت نہیں کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، تربیتی مراکز تعلیم ادارے ہیں،جہاں قانون کے مطابق تعلیم کو مذہب سے الگ کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے۔ گھر واپس جاکر وہ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ قانونی مذہبی سرگرمیوں میں شرکت کریں گے یا نہیں۔ سنکیانگ مذہبی عقائد کی آزادی کے حق کا احترام کرتا ہے اور بھر پور تحفظ کرتا ہے۔
ترجمان نے پوپ فرانسس کی کتاب میں ویغور شہریوں سے روا رکھنے جانے والے سلوک کے تناظر میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات بے بنیاد ہے کہ ویغور شہریوں پر ظلم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے میں لوگ ترقی کے ثمرات سے بھر پور انداز میں لطف اندوز ہورہے ہیں اور پراطمینان زندگی گزار رہے ہیں۔
شہر ہوتان کی مذہبی شخصیت ولی عیشان نے کہا کہ سنکیانگ میں مساجد کو شہید کرنے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں مساجد بہت چھوٹی تھیں اور پرانی ہو چکی تھیں۔سماجی ترقی کے ساتھ ساتھ بہت سے مسلمانوں نے درخواست کی کہ مساجد کو بھی ترقی دی جائے۔ان کی آرا کی روشنی میں متعلقہ اداروں نے متعدد مساجد کی تزین و آرائش کی اور جہاں ضروری تھا مساجد کی تعمیر نو کی گئی اور مقامی مسلمانوں نےاس پر اطمینان کا اظہار کیا۔