ٹرمپ انتظامیہ کے بعض سیاستدانوں کی چین مخالفت نئی بات نہیں ہے ۔ چین اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے حوالے سے وہ بار بار بے بنیاد اور نام نہاد الزامات کااظہار کرتے رہتے ہیں۔ اور ان کی بنیاد پر پابندیاں بھی عائد کرتے ہیں۔ یہ لوگ اس طرح بین الاقوامی قوائد وضوبط کو پامال کرتے ہوئے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ دراصل امریکہ کے بعض سیاستدان امریکہ کی سیاسی بالادستی اور امریکہ سب سے بہتر کے زعم سے نہیں نکل رہے ۔ بالادستی کے سوچ کے ساتھ وہ اپنے اپ کو کسی قانون، کسی ضابطے کے پابند نہیں سمجھتے اور دنیا کے دیگر ممالک کے معاملات میں مداخلت اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ دیگر ممالک ان کی مرضی کے مطابق چلیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے ۔ ہر ملک بین لاقوامی قوانین اوراصولوں کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنے معروضی حالات کے مطابق اپنے عوام اور ملک کے مفاد میں فیصلوں اور اقدامات کا ختیار اور حق رکھتاہے۔ اس اعتبار سے دوسرے ممالک کی جانب سے بے بنیاد مداخلت یا اعتراض بنتا نہیں ہے۔
تاہم امریکہ کے بعض سیاستدان امریکی بالا دستی اور سرد جنگ کی ذہنیت سے باہر نہیں نکل رہے۔
حال ہی میں امریکی محکمہ خارجہ نے چین کی قومی عوامی کانگریس کی مجلس قائمہ کے چودہ نائب سربراہوں کو ہانگ کانگ میں اظہار رائے کی آزادی اورحزب اختلاف کو دبانے کے نام نہاد الزام میں امریکی سفر یا امریکی مالی نظام تک رسائی پر پابندی کا اعلان کیا۔ جس پر چین کے نائب وزیر خارجہ زنگ زے گوانگ نے چین میں تعینات قائم مقام امریکی سفیر رابرٹ فورڈن کو طلب کیا اور چین کی جانب سے بھر پور احتجاج ریکارڈ کروایا ۔ زنگ زے گوانگ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ امریکہ کے مذکورہ بالا اقدامات نے بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی کی ہے، چین کے اندرونی معاملات میں سنجیدگی سے مداخلت کی ہے، چین امریکہ تعلقات کو بری طرح مجروح کیا ہے، اور امریکہ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر معقول رویہ اپنا یا ہے۔ چین اس پر شدید برہمی کا اظہار کرتا ہے اور اس کی شدید مذمت کرتا ہے۔
چین نے امریکہ سے فوری طور پر اپنی غلطیوں کو درست کرنے ، متعلقہ فیصلوں کو واپس لینے اور ہانگ کانگ کے امور میں مداخلت بند کرنے اور چین کے داخلی امور میں مداخلت سے باز رہنے کا کہا، بصورت دیگر اس وجہ سے ہونے والے سنگین نتائج کا ذمہ دار امریکہ ہوگا۔
دراصل بعض امریکی سیاستدانوں کو اس بات کی تکلیف ہے کہ ہانگ کانگ میں استحکام کیوں آرہاہے ، ہانگ کانگ کیوں چین کے دوسرے علاقوں کی طرح پر امن ترقی کے راستے پر گامزن ہورہاہے، ہانگ کے شہریوں کی املاک کیوں محفوظ ہوگئیں ہیں۔اور ہانگ کانگ کے شہری کیوں پرامن ماحول میں کاروبار زندگی چلارہے ہیں ۔ان کو تو مظاہرے اور توڑ پھوڑ اچھا لگتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہانگ کانگ میں انتشار ہوگا تو چین کو نقصان ہوگا اور چین کی ترقی میں رکاوٹ آئے گی۔ دراصل وہ چین کے ہانگ کانگ کی ترقی ، استحکام اور امن کو خراب کرنے کیلئے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔تاہم چین ایک خودمختار ملک ہے جو اپنی قومی سلامتی اور عوام کے مفادات کا تحفظ خوب جانتاہے۔چین کسی دوسرے ملک کے بے بنیاد الزامات اور پابندیوں کی وجہ سے اپنی ترقی کا سفر نہیں روکے گا ۔ اور نہ ہی اپنی سلامتی اور عوام کے مفاد کے تحفظ سے غافل رہے گا ۔ دنیا کے ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے چین دوسرے ممالک کا برابری کی بنیاد پر احترام کرتاہے اور توقع کرتا ہے کہ دوسرے ممالک بھی چین کی خودمختاری اور آزادی کا احترام کریں، بے بنیاد الزامات نہ لگائیں ، چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں اور چینی اداروں اور شہریوں پر غیر منصفانہ پابندیاں نہ لگائیں۔