چین آسیان تعاون نےعلاقائی اقتصادی ترقی کو ایک نئی قوت فراہم کی ہے ۔ سی آر آئی اردو کا تبصرہ

0

جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن کی 17 ویں چین آسیان ایکسپو 27 سے 30 نومبر تک ناننگ میں منعقد ہوئی۔ یہ ایکسپو ، چین-آسیان آزاد تجارتی زونز کے قیام کے  دس سال کی تکمیل،  چین – آسیان ڈیجیٹل اکانومی میں تعاون کے سال نیز حالیہ دنوں چین اور دس آسیان ممالک کے مابین آر سی ای پی پرباضابطہ  دستخط کیے جانے کے تناظر میں خاص اہمیت کی حامل رہی۔ دس سال قبل آزاد تجارتی زونز کے قیام کے بعد  دونوں فریقوں نے محصولات میں زبردست  کمی کی اور تجارت کے لیے غیر محصولاتی رکاوٹوں کو ختم کیا ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ چین اور آسیان نے اعلی سطح کی تجارتی سہولیات اورآزاد سرمایہ کاری کے زریعے  دنیا میں  سب سے کامیاب آزاد تجارتی زون قائم کی ہے۔

تجارتی میدان میں، چین-آسیان باہمی تجارت کا حجم 2010 میں 292.8.8 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2019 میں 641.5 بلین ڈالر ہو گیا ہے۔ آزاد تجارتی زونز کے قیام سے قبل ، شمالی چین میں آسیان ممالک کے گرم اور مرطوب علاقوں کے پھل شاذ و نادر ہی دیکھے جاتے تھے ، لیکن آج ،ان ممالک اور خطوں کے تازہ پھل بڑی مقدار میں وہاں کی دکانوں پر دستیاب ہیں۔

سرمایہ کاری کے لحاظ سے ، 2019 کے آخر تک ، چین اور آسیان کے مابین دوطرفہ سرمایہ کاری مجموعی طور پر 223 بلین ڈالر رہی ہے ۔ چین اور آسیان ممالک کی بہت سی کمپنیاں اور ان کی تیار کردہ مصنوعات ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہوگئی ہیں۔ 

اس سال ، کوویڈ- 19 کی وبا کے باعث ، دنیا بھر کی معیشتوں پر دباو بڑھ رہاہے  اور بین الاقوامی سرمایہ کاری اور تجارت کساد بازاری کا شکار ہے  ۔ اس عالمی رحجان کے باوجود چین اور آسیان ممالک کے مابین معاشی اور تجارتی تعاون بڑھا ہے۔

اس سازگار صورتحال کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ چین اور آسیان ایک دوسرے سے متصل ہیں۔جغرافیائی قربت اور  رسد کے کم اخراجات نزدیکی معاشی اور تجارتی تعاون کا باعث ہیں۔ دوسری بات یہ کہ  چونکہ گذشتہ اکتوبر میں چین-آسیان آزاد تجارتی زونز کے معاملات  اپ گریڈ کیے گئے تھے لہذا قواعد و ضوابط ، تجارتی معاملات کی منظوری ، خدمات کی تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں عائد کردہ پابندیوں میں نرمی آچکی ہے جو کہ ان تجارتی زونز میں بڑھتے ہوئے منافع کی وجہ ہے۔

تیسری اہم بات یہ ہے کہ  چین اور آسیان نے مشترکہ طور پر COVID-19 کے اثرات پر قابو پانے اور معاشی اور تجارتی تعاون کو وسعت دینے کے لیے مل کر کام کیا ہے ۔چین اور آسیان ممالک نے افرادی  تبادلے اور “گرین لین” کے لئے “تیز راہیں” کھولی ہیں۔ سامان کی ترسیل  کو آسان بنایا ، تاکہ کام اور پیداوار کی بحالی کو تیز تر بنایا جاسکے۔دونوں فریقوں نے جکارتہ-بینڈنگ ریلوے اور چائنا-لاؤس ریلوے سمیت بڑے منصوبوں پر تعاون کو فروغ دینے کا سلسلہ جاری رکھا ۔دونوں فریق  کسٹم کلیئرنس ، زمینی سرحدوں اور عمومی  تجارت کی ترقی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے پر عزم ہیں 

چوتھی خاص بات یہ ہے کہ  دونوں فریقوں نے ڈیجیٹل معیشت کے شعبے ، خصوصا سرحد پار ای کامرس میں باہمی تعاون بہت مضبوط کیا ہے ۔مثال کے طور پر ، “11.11 گلوبل شاپنگ فیسٹیول” میں  چین کے ای کامرس پلیٹ فارم پر بہت سی تھائی مصنوعات کی فروخت بہت عمدہ رہی بلکہ  تھائی سیاستدان اور فلمی ستارے چین کے ای کامرس پلیٹ فارم پر براہ راست ویڈیو اسٹریمنگ کے ذریعے اس سرگرمی میں شامل ہوتے ہیں ۔نئے معاشی تعاون کے اس ماڈل نے دونوں فریقوں کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری کی ترقی کو بہت فروغ دیا ہے۔

مستقبل پر نگاہیں مرکوز رکھتے ہوئے  چین دوہری گردش کے ترقیاتی نمونوں پر توجہ دے رہا ہے اور مستقبل قریب میں جنوب مشرقی ایشیاء ایک ایسا اہم علاقہ بن جائے گا جہاں دی بیلٹ اینڈ روڈ کے فوائد اور دوہری گردش کے ترقیاتی نمونے واضح طور پر فعال ہوں گے  ۔چین اور آسیان کو پالیسی، مواصلات اور ترقیاتی منصوبہ بندی کی ہم آہنگی کو تقویت دینے اور دوطرفہ سرمایہ کاری اور تجارتی تعاون کو فروغ دینے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ ای کامرس ، مصنوعی ذہانت ، سمارٹ سٹی  ، 5 جی اور دیگر شعبوں میں باہمی تعاون کے ساتھ پروگرام تیار کرکے معاشی اور تجارتی تعاون کے معیار کو بہتر بنانا چاہئے ، اس طرح علاقائی اور عالمی معاشی بحالی اور ترقی کو فروغ ملے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here