ستائیس تاریخ کو سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے میں سنکیانگ کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس منعقد ہوا۔ ہوتن کاونٹی میں تعلیم و تربیت کے مرکز سے فارغ التحصیل ایک طالب علم موے ریمو ممتی نے امریکی میڈیا سی این این کے صحافی کے سوال کے جواب میں اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ نام نہاد دعوے جھوٹے ہیں کہ تعلیم و تربیت مراکز حراستی کیمپ ہیں یا یہ کہ ان میں طالب علموں کو جبری مشقت ، بدسلوکی یا جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
ممتی نے کہا کہ اگر ہمارے جسم یا ذہن کو نقصان پہنچا ہوتا، تو کیا آج ہم آپ کے ساتھ تبادلہ خیال کررہے ہوتے ؟آپ دیکھیں ہم کتنے گرم جوش ، خوشگوار صحتمند ہیں۔ کیا ہمیں دیکھنے سے لگتاہے کہ ہم بدسلوکی کا شکار رہے ہیں؟
ممتی نے کہا کہ انہوں نے تعلیم و تربیت کے مرکز میں حاصل شدہ کمپیوٹر تعلیم کی مہارت کے ذریعے ایک ملازمت حاصل کی ہے۔ وہ تعلیم و تربیت کے مرکز کی شکر گزار ہیں۔ انہیں اپنا آپ خوش قسمت محسوس ہوتا ہے اور وہ خوش ہیں۔
پریس کانفرنس میں اس تعلیمی تربیتی مرکز سے فارغ التحصیل علی امیر جان نے جنوبی کوریا کے میڈیا KBS کے نمائندے کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اپنے ذاتی تجربات شیئر کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی و تربیتی مرکز اس کی زندگی کا ایک اہم موڑ اور ایک نیا آغاز ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب وہ پہلی بار تعلیم و تربیت کے مرکز گیا تو اسے کچھ خدشات لاحق تھے ۔جیسے یہ خوف سے کہ وہ اپنی آزادی کھو دے گا۔ لیکن جب وہ تعلیم و تربیت گاہ پہنچا تو انھوں نے دریافت کیا کہ یہ صرف ایک اسکول ہے، اور ذاتی آزادی پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ یہاں کے طلبہ اختتام ہفتہ اور تعطیلات پر گھر جاسکتے ہیں ، اورعام اوقات میں اپنے گھر والوں سے فون پر رابطہ کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کو کچھ کرنا ہوتا ہے تو آپ کسی بھی وقت چھٹی طلب کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے اہل خانہ نے بھی ان کی تعلیم اور زندگی کے حالات جاننے کے لیے تعلیم و تربیت کے مرکز کا دورہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس مرکز میں انہوں نے کمپوٹر کی ٹیکنالوجی سیکھی اور تربیت مکمل ہونے کے بعد ایک کمپنی قائم کی ۔ کمپنی کا عملہ شروع کے دو سے بیس افراد تک پہنچ گیا ہے جن میں ویغور اور خان قومیت کے لوگ شامل ہیں ۔