23نومبر کو چین کی آخری نو کاؤنٹیز میں غربت کے خاتمے کے ساتھ ہی ملک بھر کی تمام832 غریب کاؤنٹیز غربت کی فہرست سے خارج ہوگئیں۔ یہ عصر حاضر میں بنی نوع انسان کی جانب سے انتہائی غربت کے خاتمے کی راہ میں حاصل کی جانے والی تاریخی کامیابی ہے۔ چین نے اپنے نظام کی خوبیوں کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کردہ ” 2030 کے پائیدار ترقیاتی ایجنڈے ” میں طے کردہ غربت کے خاتمے کے ہدف کو دس سال پہلے حاصل کرلیا ہے جو تمام اقوام عالم کے لئے قابل تقلید ہے۔ چائنا میڈیا گروپ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے نامور تجزیہ نگار اور عالمی امور کے ماہر جناب یاسر حبیب خان نے کہا کہ اس کامیابی کا اہم ترین حصہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی شاندار رہنمائی اور جناب شی جن پھنگ کی ولولہ انگیز قیادت میں حاصل ہوا ہے۔
غربت دنیا بھرکے ممالک کو درپیش اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ چین نے اپنے نظام کی خوبیوں کا فائدے اٹھاتے ہوئے اس مسئلے کے حل کے “ٹارگیٹڈ اپروچ” کا استعمال کیا یعنی جس طرح کا علاقہ اس طرح کا حل، یہ طریقہ اس مسئلے کے حل کے لئے بہت کارگر ثابت ہوا۔ چینی نظام کی اولین خوبی یہ ہے کہ یہاں احکام کی پاسداری کی جاتی ہے جو دیگر ممالک نہیں کرسکتے۔ چین کے پالیسی سازوں نے غربت کی وجہ بننے والے مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل تجویز کئے، اس کے بعد تمام سطح کی حکومتیں اور عوام غربت کے خاتمے کی جدوجہد میں شریک ہوگئے اور ہدف کے حصول تک ان کا عزم متزلزل نہیں ہوا۔
غربت کے خاتمے کی راہ میں کامیابی کی دوسری اہم وجہ دشوار گزار اور مشکل علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی ہے۔ یہ یقیناًایک پیچیدہ منصوبہ تھا جس کے لئے بہت زیادہ سرمایہ اور افرادی قوت درکار تھی۔ کامیاب نقل مکانی نے لوگوں کی بقا کا مسئلہ حل کیا۔اس سے نمایاں طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غربت کے خاتمے کے اقدامات چین کی مسلسل سیاسی پالیسیوں کا ثمر ہیں۔
چین میں غربت کے خاتمے کی راہ میں کامیابی کی تیسری نظامی خوبی ،صنعتی ترقی سے غربت کا خاتمہ ہے۔ چین میں انتہائی غربت کے شکارعلاقوں سے غربت کے خاتمے کے طویل مدتی طریقہ کار کے طور پر صنعتی ترقی کو فروغ دیا گیا۔ یہ طریقہ کار نہایت موثر اور کارگر ثابت ہوا۔ آج پوری دنیا میں بہت سے ممالک بڑھتی ہوئی غربت سے پریشان ہیں۔ یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کسمپرسی میں زندگی گزار رہی ہے۔ اس عفریت کا مقابلہ اسی صور ت ممکن ہے جب یہ مسئلہ تمام ممالک کی اولین ترجیح میں شامل ہوگا۔ اس کے لئے چین کی طرز پر ادارہ جاتی ضمانت کی حامل ترجیحی پالیسیوں کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
چین نے گزشتہ چند سالوں میں غربت سے بچاؤ کے خلاف اپنی مہمات کے ذریعے بہت سارے عملی تجربات جمع کیے ہیں۔ اس پس منظر میں ، ہم پاکستان سمیت عالمی سطح پر غربت کے خاتمے کے لئے چینی دانش کو اپنا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ادارہ جاتی ضمانتوں کو مستحکم کرنا اور انتظامی صلاحیتوں کو مضبوط بنانا اور مرکزی حکومت کے اقدامات پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔امدادی پروگراموں کے ذریعے لوگوں کو مالی اعانت وصول کرنے کا عادی بنانے کی بجائے انہیں خود انحصاری کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا۔
غربت کے خاتمے میں حصہ لینے کے لئے معاشرے کے تمام شعبوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ غربت کے خاتمے کو اولین ریاستی ترجیح بناتے ہوئے اس راہ پر سختی سے قائم رہنے کی ضرورت ہے۔
چین نہ صرف غربت میں کمی پر زور دیتا ہے بلکہ ایسے حالات سے بھی گریز کرتا ہے جس سے لوگ ایک بار پھر غربت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ غربت کی واپسی کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ کچھ دیہی علاقوں میں پسماندہ انفراسٹرکچر اور کمزورطبی صورت حال بھی ہوسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے پائیدار ترقی کے لئے انفراسٹرکچر کو بھی مضبوط بنایا ہے۔
انتہائی غربت کے خاتمے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ غربت کا مسئلہ اب باقی نہیں رہے گا۔ بہرحال ، “غربت” ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ چین نے ملک سے انتہائی غربت کو ختم کر دیا ہے۔ غربت کی تعریف اب آہستہ آہستہ تبدیل ہوجائے گی۔ یہ وسیع تر امور کا احاطہ کرے گی۔ چین اپنے نظام کی خوبیوں سے بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے ترقی کے اس سفر کو جاری و ساری رکھے گا۔