یہ کرہ ارض جس طرح اس کائنات میں بسنے والے ہم تمام انسانوں کا مشترکہ گھر ہے۔ اسی طرح اس کرہ ارض پر رہنے والا کوئی بھی شخص خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں پیدا ہوا ہو، چاند بچپن سے اس کا کھلونا رہا ہے۔ ہم سب سرحدوں، نسلوں اور خطوں سے ماورا چاند کو دیکھتے اور چاند سے متعلق کہانیاں سنتے پروان چڑھتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کسی کی کہانی میں چاند پر ایک بڑھیا چرخہ کات رہی ہوتی ہے تو کسی کا یہ چندا ماموں ہے۔ چین میں یہ تصور ہے کہ چاند چھانگ عہ کا گھر ہے جو چینی دیومالائی کہانیوں میں چاند کی دیوی ہیں۔
چینیوں نے اپنے اس ثقافتی لیجنڈ کو آج کی جیتی جاگتی دنیا میں بھی ایک لیجنڈ بنا دیا ہے۔ اس کے لئے ایہام گوئی کی بجائے سائنسی تحقیق و ترقی کو ذریعہ بنایا گیا ہے۔ چاند پر جانے والے چین کے مشنز کا نام چھانگ عہ رکھا گیا ہے۔ جس نے ماضی اور حال دنوں کو باہم مربوط کر دیا ہے۔ پہلا چھانگ عہ مشن سن 2007 میں لانچ کیا گیا تھا اور 23 نومبر 2020 کو پانچواں چھانگ عہ مشن کامیابی کے ساتھ چاند کی جانب روانہ ہوا۔ اب تک روانہ کئے گئے ان مشنز کو اپنی ٹیکنالوجیز کی وجہ سےبہت سے اعزازات حاصل ہیں۔ سب سے ممتاز بات چھانگ عہ فور کی چاند کے تاریک حصے پر کامیاب لینڈنگ ہے جو اس سے قبل دنیا کے کسی اور مشن کے حصے میں نہیں آئی۔
موجودہ مشن چھانگ عہ فائیو اپنے تمام کامیاب آپریشنز کے بعد سن 1976 کے بعد دنیا کا وہ پہلا مشن ہوگا جو چاند کی سطح سے مختلف نمونے اکھٹے کر ے گا اور انہیں زمین پر واپس لائے گا۔ اس سے قبل سابقہ سوویت یونین کا مشن ۴۴ سال قبل چاند کی سطح سے 170.1 گرام نمونے زمین پر لا چکا ہے۔ موجوہ مشن دو کلو گرام نمونے زمین پر لائے گا۔ یہ مشن خلائی تحقیق سے متعلق میں معلومات گراں قدر اضافے کا باعث بنے گا۔ مستقبل کی ٹیکنالوجی اور چاند پر جانے والی آئندہ مہمات کے حوالے سے ترقی کو فروغ دے گا۔
آٹھ اعشاریہ دو میٹرک ٹن وزنی چھانگ عہ فائیو کو بیس منزلہ لانگ مارچ کیرئیر راکٹ کی مدد سے لانچ کیا گیا ہے۔ 23 نومبر کو صبح کے چار بج پر تیس منٹ پر یہ چین کے آسمانوں کو اپنی سنہری تیز روشنی سے منور کرتے ہوئے بجلی کی مانند اپنی منزل کی جانب کوند گیا۔ وینچنگ کے ساحلی لانچ پیڈ کے اند ر اور باہر ساحل پر موجود سینکڑوں لوگ اس شاندار منظر کے شاہد بنے۔ یہ چین کی جانب سے روانہ کیا گیا اب تک کا سب سے لمبا اور وزنی مشن ہے۔
چین کے تیرہویں پنج سالہ منصوبے کے دوران تحقیق و ترقی کے میدان میں چین نے بہت سی کامیابیاں اپنے نام کی ہیں۔ اس عرصے میں خلائی میدان میں حاصل کی جانے والی قابل ذکر کامیابیوں میں بیدو نیوگیشن سسٹم کی فعالیت، چاند کے تاریک حصے پر کامیاب لینڈنگ، مریخ کی جانب تیان آن ون مشن کی کامیاب روانگی اور اب چھانگ عہ فائیو کی لانچنگ شامل ہے۔ چینی سائنسدان پرامن، ماحول دوست اور انسان دوست ترقی کے راستے پر گامزن رہتے ہوئے نئے افق وا کر رہے ہیں۔
چین زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح خلائی ترقی کے سفر میں بھی کسی دوڑ میں شریک نہیں ہے۔ چین کے خلائی ترقی کے ماڈلز کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ چین پرامن سائنسی تحقیق کی راہ پر رواں دواں ہے جس کا مقصد بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے نئے جہان تلاش کرنا ہے۔ چین کے مقاصد توسیع پسندانہ ہر گزنہیں ہیں، چین کی ترقی کا مقصد کسی کو پچھاڑنا نہیں ہے اور نہ ہی چین کسی پر سبقت لے جانے کا خواہاں ہے۔ چین کی خلائی ترقی انسانی مزاج میں موجود خلائی اسرار کو جاننے کی خواہش کی تشفی اور اس تحقیق و ترقی سے حاصل شدہ ثمرات کو بنی نوع انسان کے بہترین مفاد میں استعمال کرنا ہے۔ چین نے پہلے ہی اعلان کیا ہے کہ مشن کے دوران زمین پر واپس لائے جانے والے قمری نمونے دنیا کے مختلف ممالک کو مزید تحقیق کے لئے تقسیم کرے گا۔ دنیا بھر کے سائنسدانوں نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کہ مصداق ترقی کی منازل میں ابھی اور بہت سے پڑاؤ اور سنگ میل انسان کی جانب سے تسخیر کے منتظر ہیں۔