اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں 210 منٹ تک جاری رہنے والے اجلاس میں امریکہ میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر ثانی کے دوران امریکہ کے اتحادی ممالک سمیت 110 سے زائد ممالک نے امریکہ میں انسانی حقوق کی ابتر صورت حال پر سوالات اٹھائے، کڑی تنقید کی اور تجاویز پیش کیں۔ اسی روز، امریکہ میں کورونا وائرس کے تصدیق شدہ کیسوں کی مجموعی تعداد 10 ملین سے تجاوز کر گئی ، اور ہلاکتوں کی تعداد 240،000 کے قریب تھی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسے ملک کی حیثیت سے جس کی معاشی و تکنیکی صلاحیتیں دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط ہیں اور اس کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ طبی وسائل موجود ہیں،تو وہاں تصدیق شدہ کیسز کی تعداد اور اموات کیوں بڑھ رہی ہیں؟امریکی عوام کے بنیادی حقوق ، بقا اور ترقی کے حق کو کس نے پامال کیا ہے؟
اس کی ایک ہی وضاحت ہےکہ چند امریکی سیاستدانوں نے انتخابی سیاست اور دولت کے حصول کو لوگوں کی زندگی سے بالاتر سمجھا، جس کا ناگزیر نتیجہ موجودہ تباہی کی صورت میں ظاہر ہوا۔وہ سائنسی انتباہات کو نظرانداز کرتے رہے اور وبا کے خلاف ردعمل میں تاخیر کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے وبا پر سیاست کی، اصل وجہ تلاش کرنے کی بجائے وہ قربانی کے بکرے تلاش کرتے رہے۔ انہوں نے ماہرین کے مشوروں کو مسترد کردیا ، اور اقتصادی فوائد کے لئے بار بار بچاؤ کے اقدامات کی خلاف ورزی کرتے رہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس رویے کو “ریاست کی طرف سے منظور شدہ قتل عام “قرار دیا ہے۔
امریکہ میں انسانی حقوق کی بے شمار خلاف ورزیاں ہیں۔ امریکہ سیاست دان اپنے رویوں کی وجہ سے انسانیت سوز تباہی کا باعث بنے ہیں۔ ان کے سیاہ سایوں نے دنیا کے دیگر ممالک کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ایران پر عائد پابندیوں کی وجہ سے ، ذیابیطس کے مریضوں کے لئے انسولین کے ایک انجکشن حصول بھی محال ہے ، اور اب کورونا وائرس نے لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ امریکی سیاستدان جو انسانی حقوق کے نام پر اپنے درپردہ مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔