شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کی کونسل کابیسواں اجلاس دس تاریخ کو آن لائن منعقد ہو رہا ہے۔ یہ کووڈ-۱۹ کی وبا پھوٹنے کے بعد ہنگامہ خیز بین الاقوامی صورتحال کے تنا ظر میں تنظیم کا ایک اہم اجلاس ہے جو تنظیم ،خطے اور یہاں تک کہ دنیا کی مستقبل کی ترقی کی سمت کا تعین کرےگا۔تنظیم کے رکن ملکوں کے علاوہ پاکستان ،افغانستان اور بھارت سمیت تنظیم کے مبصر ممالک کے نمائندے بھی موجودہ اجلاس میں شر کت کر رہے ہیں۔
جب بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو شنگھائی روح کا ذکر لازم آتا ہے ۔ تو یہ شنگھائی روح ہے کیا ؟ مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو شنگھائی روح برابری کی بنیاد پر بات چیت کے ذریعے انتہائی پیچیدہ مسائل کا حل ڈھونڈ نے کا نظریہ ہے۔ اصل میں شنگھائی تعاون تنظیم کا پیشرو چین اور سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد تاریخی سرحدی امور کے حل کے لئے متعدد خودمختار ریاستوں کا مل کر قائم کردہ ایک مذاکراتی طریقہ کار تھا ۔اس نظام کے ذریعے مختلف فریق اختلافات دور کرتے ہوئے باہمی افہام و تفہیم اور اتفاق رائے پر پہنچے۔اس نظریے کے تحت ممالک کے مابین تعلقات میں انتہائی پیچیدہ مسائل حل کرنے کی استعداد اور امکان کو بلند کیا گیا ہے۔ “شنگھائی روح” اسی نظریاتی اور عملی تجربے کا مظہر اور عکاس ہے۔خاص کر وبا کے بعد دنیا میں یکطرفہ پسندی اور تحفظ پسندی اور بالادستی کی نئی لہروں کے تناظر میں شنگھائی روح دنیا کے امن و استحکام اور مفاہمت و ہم آہنگی کے لئے زیادہ مددگار اور قیمتی تصور کے طور پر سامنے آیا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن، مبصر اور مذاکراتی ممالک کی ترقی کی سطح مختلف ہے۔مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے مابین بہت زیادہ فرق ہے یہاں تک کہ تنظیم میں شریک ممالک کے مابین تاریخ کے چھوڑے ہوئے متعدد تنازعات اور اختلافات موجود ہیں اور شنگھائی تعاون تنظیم میں ان کے مطالبات بھی مختلف ہیں۔ لہذا ، شنگھائی تعاون تنظیم تعاون اور اشتراک پر بہت زور دیتا ہے۔ استحکام اور مشترکہ ترقی کے تصور نے رکن ممالک کے مابین اچھی دوستی ، باہمی اعتماد اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے اور اسے گہرا کرنے ، علاقائی سلامتی اور استحکام کو مستحکم کرنے اور مشترکہ ترقی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم نے باہمی اعتماد ، باہمی فائدے ، مساوات ، مشاورت ، مختلف تہذیبوں کے احترام ، اور مشترکہ ترقی کی تلاش کو خاص طور پر اجاگر کیا ہے ۔یہ پیچیدہ بین الاقوامی صورتحال اور بین الاقوامی تنازعات اور تضادات کے حل کے لئے نئے دور میں ایک موئثر فارمولا بن گیا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں شریک بیشتر ممالک “دی بیلٹ اینڈ روڈ”سے وابستہ ہیں۔”دی بیلٹ اینڈ روڈ” کا نفاذ ان ممالک کے درمیان معاشی ، سلامتی اور ثقافتی تعاون کو فروغ دے رہا ہےاور اس نے ان کے مابین تجارتی سہولت ، خوراک کی حفاظت ، کسٹم تعاون اور دیگر شعبوں میں تعاون کو تقویت بخشی ہے۔
سلامتی پر تعاون شنگھائی تعاون تنظیم کے شریک ملکوں کے لئے خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس علاقے میں بیشتر ممالک کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم نے سلامتی کے تعاون کو مستحکم کرنے کیلئے جو تجویز پیش کی ہے وہ “تین قوتوں” کا مقابلہ کرنے اور علاقائی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے کے مجموعی مقصد کے حصول کے لئے بہت مددگار ثابت ہوئی ہے۔ تنظیم کے قیام کے بعد خطے میں سیکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لینے سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ تنظیم نےخطے میں قیام امن اور سلامتی میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ رکن ممالک کے مابین ہم آہنگی اور تعاون ، کشادگی اور شفافیت کے اصولوں کی پابندی اور تیسرے فریق کو نشانہ نہ بنانا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم متعلقہ ممالک کے پرامن اور مستحکم تعلقات کے لئے ایک اہم ستون اور ضمانت بن گیا ہے۔