“برٹش فنانشل ٹائمز “کے سینئر نامہ نگار جیمز جن نے حالیہ دنوں ایک آرٹیکل میں کہا کہ امریکہ چین کے ساتھ ٹیکنالوجی کے میدان میں جاری محاز آرائی میں ناکام ہو گا۔انہوں نے کہا کہ واشنگٹن کی چینی ٹیک کمپنیوں کو دبانے کی کوششیں درحقیقیت مختصر اور طویل بنیادوں پر خود امریکہ کے لیے تباہ کن ہیں۔امریکہ میں ٹیکنالوجی اور چپ کے حوالے سے بڑے ادارے “کوال کام ” کا پینسٹھ فیصد منافع تو صرف چین سے آتا ہے۔کمپنی نے گزشتہ ماہ خبردار کیا کہ چین کی جانب سے “آرڈرز” میں واضح کمی کے بعد رواں مالیاتی سال کے دوران اُس کے منافع میں نمایاں کمی آئے گی۔صرف یہی نہیں بلکہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران تقریباً پینتس سو سے زائد امریکی کمپنیوں نے چینی ساختہ مصنوعات پر محصولات عائد کرنے پر امریکی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔ محصولات کو غیر قانونی قرار دینے والی ان کمپنیوں میں ٹیسلا ،فورڈ موٹرز ،ٹارگٹ ، وال گرینز اور ہوم ڈپوٹ جیسے بڑے نام شامل ہیں۔
معروف جریدے “فارن افیئرز” نے ایک تبصرے میں امریکی حکومت کے اقدامات کو ادھورے ، بے ترتیب اور خود امریکی مفادات کے لیے بھی نقصان دہ قرار دیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس ڈیوڈ اگیناٹس نے لکھا کہ امریکہ سائنس و ٹیکنالوجی میں کافی ترقی یافتہ ہے مگر ٹیکنالوجی کے میدان میں دیگر ممالک سے علیحدگی اختیار کرنا اور بیرونی کمپنیوں کو دبانے جیسے اقدامات سراسر حماقت ہے۔امریکی حکومت کو زی شعور آوازوں کو سننا چاہیے اور فوری طور پر زاتی مفادات پر مبنی ایسے سیاسی رویے ترک کرنے چاہیے جن سے امریکہ اور چین کے درمیان سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری اور تعاون متاثر ہو۔