امریکی رہنما نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے ماحولیاتی اور سمندری شعبے میں چین کے مثبت اقدامات کو منفی رنگ دینے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ امریکہ کو پیرس معاہدے سے علیحدگی پر فخر ہے۔ امریکہ کا یہ موقف انتہائی مضحکہ خیز ہے ۔ لیکن زی شعور لوگ جانتے ہیں کہ امریکی اقدام کا مقصد عالمی برادری کو فریب دینے کی کوشش ہے تاکہ بین الاقوامی تعاون میں رکاوٹ بننے والے کی شناخت نہ کی جا سکے ۔ تاہم حقائق سے نظریں نہیں چرائی جا سکتی ہیں۔ چین کا ماحولیاتی تحفظ کس قدر موثر ہے؟ حقائق اس کا بہترین ثبوت ہیں ۔ تبصرے میں کہا گیا ہے کہ چین میں “ماحولیاتی تہذیب” کو آئین کا جزو بنایا گیا ہے۔ یہ ترقیاتی تصور کہ ” صاف ستھرا پانی اور سرسبز پہاڑ بیش قیمت دولت ہیں ” چین بھر میں مقبول ہے ۔2005 کے مقابلے میں 2018 میں چین کے فی جی ڈی پی یونٹ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 45.8 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ دو ہزار انیس
کے آخر تک چین میں گھریلو کچرے کو بے ضرر ٹھکانے لگانے کی شرح تقریباً 99 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔عالمی برادری نے بھی وسیع پیمانے پر چین کی کوششوں کو تسلیم کیا ہے ۔ موجودہ جنرل اسمبلی کے دوران چینی صدر شی جن پھنگ نے اپنے خطاب میں دو ہزار ساٹھ تک ملک میں کاربن سے پاک ترقی کا ہدف طے کیا ہے جس سے ایک بڑے ملک کے زمہ دارانہ رویے کی عکاسی ہوتی ہے ۔ دوسری جانب امریکہ دنیا میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سب سے بڑا ملک ہے ، امریکہ نے نہ تو کیوٹو پروٹوکول کی توثیق کی ہے بلکہ پیرس معاہدے سے بھی علیحدگی اختیار کی ہے ۔ اس طرح امریکہ دنیا میں کاربن اخراج کے نظام اور اقدامات سے مکمل طور پر الگ تھلگ ہے جس سے عالمی برادری کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے تعاون کو سخت نقصان پہنچا ہے۔