اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ ممالک ، خاص طور پر چین اور ایشیا کے کئی ممالک نے نوول کورونا وائرس کےخلاف بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیاہے۔ تاہم امپورٹڈ کیسز کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی ایک ملک یا کئی ممالک کی کامیابی اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک پوری دنیا میں وبا پر قابو نہیں پایا جاتا۔ اس وقت جب دنیا کے متعدد ممالک وائرس کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں اور کچھ ممالک جیسا کہ برطانیہ میں انسداد اور کنٹرول کے اقدامات میں نرمی کے نتیجے میں دوبارہ کیسز میں اضافہ ہورہا ہے اور بعض ممالک میں وائرس کی دوسری لہر کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔ایسے میں یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ دنیا ابھی وائرس پر مکمل قابو پانے سے کوسوں دور ہے ۔
ماہرین صحت اور سائنسدان بھی بار بار متنبہ کررہے ہیں کہ جب تک وبا کے خلاف ویکسین یا موثر علا ج سامنے نہیں آتا جب جب بھی لوگ احتیاطی تدابیراختیار کرنا چھوڑیں گے ۔وائرس دوبارہ سر اٹھا ئے گا۔
برطانیہ میں ممکنہدوسری لہر کی ایک اہم وجہ مبینہ طور پر لوگوں کا ، خاص طور پر نوجوانوں کا ، پابندیوں میں نرمی کے بعد سماجی دوری کے قوانین کو نظر انداز کرنا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وبا کی نوعیت کے بارے میں آگاہی اور اس سے متعلق اپنی معاشرتی ذمہ داریاںنبھانا وائرس پر قابو پانے کیلئے ناگزیر ہے۔ بحران کےاس وقت میں ایک ذمہ دار شہری کا مظاہرہ کرنا دوسرے اوقات کے مقابلے میں کہیں اہمیت اختیار کرگیاہے ۔ تاہم اس بات کا بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے عالمی سطح پر انفکشن اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں اضافہ ہوا ہے ، زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور وبا کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
لیکن اس وائرس کے خلاف عالمی سطح پر لڑائی کا ایک اور اہم پہلو جس کا اکثر ممالک نے کم مظاہرہ کیا ہے ، حکومتوں کے درمیان تعاون اور یکجہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹھوس کوششوں کے بغیر اس وائرس کے خلاف جنگ جیتنے میں زیادہ وقت لگے گا اور ہلاکتوں کی تعداد بھی زیادہ ہوگی۔
یہ امر افسوسناک ہے کہ جب دنیا کو ہم آہنگی اور تعاون کی ضرورت ہے ، ایک دوسرے پر الزام تراشی اورلعن طعن کا بازار گرم ہے اور یکجہتی کی بجائے بین الاقوامی برادری تقسیم کی حالت میں ہے۔عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اگرچہ اس وبا نے عالمی سطح پر صحت کے عالمی بحران کے لئے دنیا کی ناکافی تیاریوں کو بے نقاب کردیا ہے،لیکن ممالک طویل مدتی منصوبے بنانے اور مستقبل کے بحرانوں کے لیےخا ص طور پر ابتدائی انتباہ اور نگرانی کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کیلئے متحد ہوسکتے ہیں ۔ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ کے مطابق واحد موثر احتیاط عالمی یکجہتی اور طویل مدتی تعاون کی کوشش ہے۔
بدقسمتی سے کچھ ایسے سیاستدان بھی ہیں جو مختلف سوچتے ہیں، ایسے وقت میں بھی جب دنیا بھر میں انفیکشن کی کل تعداد 30 ملین سے تجاوز کرچکی ہے ، اور اموات 1 ملین کے قریب پہنچ چکی ہیں ،یہ سیاستدان اس وائرس سے متعلق غیر زمہ داری اور لاپرواہی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور اپنی زمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں اور تعاون اور یکجہتی سے بھاگ رہے ہیں۔
اس سے پہلے کہ موسم سرما میں دوسری تباہ کن لہر آئے اس روش کو تبدیل کرنا ہوگا۔اقوام عالم کی صحت کی خاطر یکجہتی ،تعاون اور اتفاق کو فروغ دینا ہوگا۔