رواں سال اقوام متحدہ کے قیام کی پچہترویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔گزشتہ پچہتر برسوں میں اقوام متحدہ نے مختلف ممالک کے لیے ایک مساوی پلیٹ فارم فراہم کیا ہےاور عالمی امن و امان کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔لیکن بسا اوقات بعض بڑے ملک کی ہٹ دھرمی کے باعث اقوام متحدہ کے مرکز یت پر مبنی عالمی انتظام و انصرام کو سنگین چیلنجز کا سامنا پڑتارہا ہے۔
آج کے دور میں دنیا کو غربت کے خاتمے ، علاقائی تصادم ، موسمیاتی تبدیلیوں اور وبائی صورتحال سے مشترکہ طور پر نمٹنے سمیت دیگر اہم چیلنجوں کا سامنا ہے ۔تاریخی تجربات کی بنیاد پر یا موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق،تمام ممالک ، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لیے کثیرالجہتی پر ثابت قدم رہنا کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
یاد رہے کہ دو ہزار ایک کے بعد امریکہ نے افغانستان ،عراق،لیبیا اور شام سمیت دیگر ممالک کے خلاف جنگیں شروع کیں جن میں آٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک اور کروڑوں بے گھر ہوئے۔حالیہ دنوں پاکستان کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں چائنا ریسرچ سینٹر کے نائب ڈائریکڑ ضمیر عوان نے چائنا میڈیا گروپ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ برسوں میں امریکہ نے اقوام متحدہ کو چھوڑ کر کئی مرتبہ دوسرے ممالک کے خلاف یک طرفہ کارروائیاں کیں جس نے تحفظ امن میں اقوام متحدہ کے کردار کو کمزور کیا اور علاقائی امن و امان کو نقصان پہنچا یا۔ان کے خیال میں اقوام متحدہ کے قیام کی پچہترویں سالگرہ کے موقع پر عالمی برادری کو اس پر توجہ دینی چاہیئے ۔
حالیہ برسوں میں امریکہ نے یونیسکو اور پیرس معاہدے سمیت دس سے زائد عالمی معاہدوں یا تنظیموں سے دستبرداری اختیار کی۔ اس کی اہم مثال یہ کہ جب پوری دنیا مل کر کووڈ-۱۹ وبا کا مقابلہ کررہی ہے ، تو امریکہ نے صحت کی عالمی تنظیم سے الگ ہونے کا انتخاب کیا اور اپنے یک طرفہ عمل سے وبا کے خلاف عالمی تعاون کو شدید نقصان پہنچایا۔ امریکہ کی یکطرفہ پسندی موجودہ بین الاقوامی تعلقات اور نظام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ امریکی ہٹ دھرمی سے ثقافت و تعلیم ،صحت عامہ اور موسمیاتی تبدیلیوں سمیت دیگر شعبوں میں عالمی برادری کا تعاون شدید متاثر ہوا ہے۔موجودہ امریکی حکومت “امریکہ فرسٹ”کو ترجیح دے کر دوسرے ممالک کو یرغمال بنانا چاہتی ہے۔
لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ کی یکطرفہ پسندی کو عالمی سطح پر قبول نہیں کیا گیا۔ انیس تاریخ کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے یکطرفہ طور پر اعلان کیا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231 کے مطابق ایران پر پابندیوں کو فوری طور پر بحال کر دیا گیا ہے۔ پومپیو نے مزید دھمکی دی کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک متعلقہ پابندیوں کو یقینی بنانے میں ناکام رہے تو انہیں “نتائج” کا سامنا کرنا پڑے گا۔لیکن مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ امریکہ پہلے ہی ایران کے ایٹمی مسئلے سے دستبرداری اختیار کر چکا ہے ۔اس حوالے سے یورپی یونین،روس اور چین سمیت متعدد ممالک اور تنظیموں نے نشاندہی کی ہے کہ امریکہ کو ایران کے خلاف پابندیوں کی بحالی کا اعلان کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ اس سے قبل سلامتی کونسل نے امریکہ کی جانب سے پیش کردہ ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے مسودے کو مسترد کر دیا تھا۔تو امریکہ کا کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کے نام سے دوسرے ملک پر پابندی عائد کرے؟ کیا وہ اپنی مرضی سے دنیا کے کسی بھی ملک کے خلاف کچھ بھی کر سکتا ہے؟
اقوام متحدہ کی سترویں سالگرہ کی سلسلہ وار سرگرمیوں میں چینی صدر شی جن پھنگ نے نئے طرز کے بین الاقوامی تعلقات کی تشکیل دینے کا انیشیٹو پیش کیا تھا جس میں زور دیا گیا تھا کہ مختلف ممالک کو مزاحمت کی بجائے مذاکرات کرنے چاہیں، اتحادیوں کی بجائے شراکت دار بننے چاہیں۔خواہ بڑا ملک ہو یا چھوٹا، سب کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیئے۔صرف باہمی احترام اور مساوات کی بنیاد پر ہی ہم مل کر بنی نوع انسان کو درپیش مختلف اقسام کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں گے اوراس لیے اقوام متحدہ کے وقار اور کثیرالجہتی کے تحفظ کو زیادہ اہمیت دی جانی چاہیئے۔