نومی اوساکا نے یو ایس اوپن کے فائنل میں اپنے تیسرے گرینڈ سلام ٹائٹل کے حصول کے لیے وکٹوریہ آزارنکا کے خلاف مقابلے کے دوران پختگی کا مظاہرہ کیا۔
22 سالہ جاپانی کھلاڑی نے اپنا دوسرا یو ایس اوپن ٹائٹل 1-6 6-3 6-3 سے جیتا۔
پہلے سیٹ میں اوساکا مغلوب تھیں اور دوسرے میں انھیں 3-0 سے پیچھے رہنے کا خطرہ تھا لیکن جلد ہی وہ کھیل میں واپس آئیں اور اگلے 12 میں سے 10 گیمز جیت لیں۔
بیلاروس کی ازارنکا، 2013 کے بعد اپنے پہلے بڑے فائنل میں، آساکا کے آؤٹ ہونے سے پہلے ہی فیصلہ کن مقابلے میں 5-3 سے ہار گئیں۔
اوسکا نے جیسے ہی اپنا دوسرا میچ پوائنٹ لیا، وہ خوشی سے چیخ پڑیں اور پھر اطمینان سے کورٹ پر لیٹ گئیں اور انھوں نے نیویارک کے آسمان پر نگاہ ڈالی اور اپنی تازہ کارنامے پر سوچنے لگیں۔
اوساکا کی کامیابی اس لیے بھی ممکن ہوئی کیونکہ 31 سالہ ازارنکا نے افتتاحی سیٹ میں جس بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا، بعد میں وہ اسے برقرار رکھنے میں ناکام رہیں۔
اوسکا جنھوں نے نے 2018 یو ایس اوپن اور 2019 آسٹریلین اوپن جیت تھا، فائٹ بیک کے بعد اپنا ہر گرینڈ سلام جیتنے کا ریکارڈ برقرار رکھا۔
اوساکا نے ازرنکا کو پیغام میں لکھا ’میں اب کسی اور فائنل میں آپ سے مقابلہ نہیں کرنا چاہتی، میرے لیے یہ واقعی ایک سخت مقابلہ تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’یہ واقعی میرے لیے متاثر کن تھا کیونکہ میں چھوٹی عمر سے آپ کو یہاں کھیلتا دیکھتی آئی ہوں۔ میں نے بہت کچھ سیکھا، لہذا آپ کا شکریہ۔‘
اوساکا کے لیے یو ایس اوپن کا دوسرا ٹائٹل
دو سال قبل فلشنگ میڈو میں اوساکا کو پہلی کامیابی سرینا ولیمز کے خلاف اس میچ میں ملی تھی جس میں سرینا نے امپائر کارلوس راموس پر صنفی تعصب برتنے کا الزام لگایا تھا۔
کھیل کے اختتام پر اپنی پہلے گرینڈ سلام ٹرافی کو لیتے وقت اوساکا پوڈیم پر کھڑی روتی رہیں۔
دوسری کامیابی اس سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔
یہاں انھیں ایک بہترین کھلاڑی آزارنکا کے خلاف سیٹ سے واپس لڑنا پڑا،اور ایک مشکل اور فیصلہ کن مرحلے سے میچ کا پانسہ پلٹنا پڑا۔یہ میچ دونوں میں سے کوئی بھی جیت سکتا تھا۔
آرتھر ایشے سٹیڈیم کورونا وائرس وبائی امراض کی وجہ سے عملی طور پر خالی تھا۔
ان عجیب و غریب حالات میں، اوساکا اس لمحے سے بھر پور لطف اندوز ہوئیں جب انھوں نے اپنی ٹیم اور ریپر بوائے فرینڈ کورڈے کے ساتھ انعامی ٹرافی اٹھائی۔اگرچہ انھیں میز سے خود ٹرافی اٹھانی پڑی تھی کیونکہ سماجی دوری کے قواعد کی وجہ سے ٹرافی انھیں پیش نہیں کی جا سکتی تھی۔
جب ازارنکا نے تیز رفتار آغاز سے انھیں مغلوب کیا تو آساکا تھوڑا سا کھوئی ہوئی نظر آئیں، انھوں نے کچھ غیر معمولی غلطیاں کیں اور بیلاروس کے فعال کھیل اور جارحیت سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کرتی دکھائی دیں۔
چینج اوورز کے ٹائم پر اپنے سر پر تولیہ پھینکنا اوساکا کے خدشات کی علامت تھا۔
ایک اور کوشش کے بعد مایوس اوساکا نے اپنے ریکٹ کو ناپسندیدگی کے ساتھ فرش پر پھینک دیا۔
آخر کار حالیہ مہینوں کے دوران پیدا کی گئی ذہنی پختگی نے ہی ان کی مدد کی۔
اوساکا، جو اپنی جیت کے بعد دنیا میں تیسرے نمبر پر آ گئی ہیں، نے کہا ’میں نے سوچا کہ ایک گھنٹہ میں ہی ہار جانا شرمناک ہوگا۔‘
دنیا بھر میں اوساکا کے چرچے ہیں
پچھلے مہینے سنسناٹی ماسٹرز یو ایس اوپن کے دوران اوساکا نے نہ صرف کورٹ پر متاثر کن کارکردگی دکھائی، بلکہ امریکہ میں نسل پرستی اور پولیس کی بربریت کے خلاف جنگ میں اپنی سرگرمیوں سے بہت سارے مداحوں کا دل بھی جیتا ہے۔
یو ایس اوپن کے آغاز سے چند دن قبل، پولیس کی جانب سے جیکب بلیک نامی ایک سیاہ فام شخص کی گولی مارنے کے بعد احتجاج کے طور پر اوساکا نے اپنے وسٹرن اور سدرن اوپن سیمی فائنل میں کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔
اپنے یو ایس اوپن کے پہلے راؤنڈ میچ سے قبل انھوں نے چہرے پر ایک سیاہ فام خاتون، بریونا ٹیلر کے نام کا ماسک پہنا ہوا تھا۔ اس خاتون کو مارچ میں پولیس اہلکار نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔
اوساکا، جن کے جاپانی اور ہیتی والدین ہیں، اور انھوں نے امریکہ میں پرورش پائی، نے بتایا کہ ان کے پاس سات ماسک ہیں جن کے سات مختلف نام ہیں۔
اوساکا نے اپنی جیت کے بعد کہا ’میں چاہتی تھی کہ لوگ بات کرنا شروع کریں۔‘
’میں اپنی بند دنیا کے اندر رہ رہی تھی اور مجھے اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ بیرونی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ اسے جتنا زیادہ ریٹویٹ کیا جاتا ہے، لوگ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ باتیں کریں گے۔‘
ازرنکا نے دل جیت لیے لیکن ایک اور گرینڈسلام سے محروم
2013 میں آسٹریلیائی اوپن کراؤن کا دفاع کرنے کے بعد سابق عالمی نمبر ایک ازارنکا کا مقصد پہلا گرینڈ سلام ٹائٹل اپنے نام کرنا تھا۔
کچھ تجزیہ نگاروں نے پیش گوئی کی تھی کہ وہ پچھلے کچھ پریشان کن سالوں کے بعد دوبارہ کھیل کے سب سے بڑے انعامات کے لیے مقابلہ کریں گی۔
ازارنکا نے دسمبر 2016 میں اپنے بیٹے کی ولادت کے لیے کھیل سے دوری اختیار کی تھی پھر بیٹے لیو کی کسٹڈی کے لیے ہونے والی لڑائی کے باعث وہ جلد واپسی نہ کر پائیں۔
گذشتہ ہفتے انھوں نے اعتراف کیا تھا کہ جب کورونا وائرس کی وجہ سے ڈبلیو ٹی اے ٹور معطل ہوا تو انھوں نے کھیلوں کی دینا کو خیر آباد کہنے کے بارے میں سوچا تھا۔
بالآخر، وہ ایک اہم اعزاز جیتنے والی چوتھی ماں نہیں بن سکیں کیونکہ اوساکا نے انھیں یو ایس اوپن کے فائنل میں شکست دے دی ہے۔