جب مشرقی لندن میں چھ سالہ ایان موسیٰ اور میکائل اسحاق کو یمن تنازع کے متعلق پتا چلا تو انھوں نے لیموں پانی کا ایک سٹال لگانے کی ٹھانی۔
لیکن وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی ان کے اس سٹال پر آئے بغیر اور لیموں پانی پیے بغیر ہی ان کی کافی مدد کرے گا۔
اداکارہ اینجلینا جولی کو جب بی بی سی نیوز کی ویب سائٹ سے اس مہم کے بارے میں علم ہوا تو انھوں نے ان بچوں کو ایک نوٹ لکھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں معذرت خواہ ہوں، آپ کے سٹال سے لیموں پانی تو نہیں خرید سکتی لیکن کچھ رقم عطیہ کرنا چاہتی ہوں۔‘
ایان کی والدہ کا کہنا ہے کہ یہ یقیناً عجیب مگر مہم کے لیے عمدہ بات تھی۔
عدیلہ موسیٰ نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ہالی وڈ کی سٹار نے ایان اور میکائل کی مہم کے حوالے سے جاننے کے بعد برطانیہ میں اپنے نمائندے سے بات کی جنھوں نے پھر ہم سے اس حوالے سے رابطہ کیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ہفتے کہ اختتام پر ریڈبرج میں رہنے والے ان بچوں کو اینجلینا جولی سے ایک ’خوبصورت رقعہ‘ موصول ہوا اور ساتھ ہی امداد کے لیے ایک خطیر رقم بھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ رقم موصول ہونے پر بچوں کے کیا تاثرات تھے تو ان کا کہنا تھا کہ آغاز میں تو انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اینجلینا جولی کون ہیں لیکن ’ان کے والد بہت پر جوش تھے۔‘
جلد ہی ان بچوں کو ان کی چند کلپس اور فلمز دکھائی گئیں تو انھیں اندازہ ہوا کہ ٹومب ریڈر اور میلیفیشنٹ کی اداکارہ کون ہیں۔
’اب انھیں پتا چل رہا ہے کہ یہ کتنی بڑی بات ہے‘
ان دونوں دوستوں نے اینجلینا جولی کو ایک ویڈیو پیغام بھیجا ہے جس میں انھوں نے اداکارہ سے کہا کہ ’آپ کا جب بھی لندن آنا ہو تو آپ بلا جھجھک یہاں سے تازہ لیموں پانی کا ایک گلاس ضرور پی سکتی ہیں۔‘
یمن میں خانہ جنگی کے دوران ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ تقریباً دو کروڑ 40 لاکھ افراد کو زندہ رہنے کے لیے امداد کی ضرورت ہے۔
اینجلینا جولی جو خود اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزیں کی خصوصی سفیر کے طور پر فریض سرانجام دے رہی ہیں اور انھوں نے اس سے قبل بھی یمن بحران کے حوالے سے بات کی ہے۔
عدیلہ موسیٰ کا کہنا ہے کہ اینجلینا جولی کی جانب سے عطیہ کی جانے والی رقم سے ان کے بچوں کی کاوش کے حوالے سے آگاہی پھیلی ہے اور اب انھیں دنیا بھر سے آن لائن مہم کے لیے رقم موصول ہو رہی ہے اور اب تک یہ دونوں دوست 67 ہزار پاؤنڈ اکھٹے کر چکے ہیں۔
یہ دونوں بچے رواں ہفتے اپنے سکول روانہ ہو گئے ہیں۔
عدیلہ موسیٰ کا کہنا تھا کہ ’یہ تمام فریقین کے لیے انتہائی ضروری تھا۔‘