افغان امن مذاکرات: کیا قطر میں ہونے والے مذاکرات کی کامیابی انڈیا اور افغانستان کو اور قریب لے آئے گی؟

0

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات میں انڈیا بھی گہری دلچسپی رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں۔

شاید اسی لیے افغان حکومت اور طالبان کے مابین قطر میں جاری مذاکرات میں کی آن لائن افتتاحی تقریب میں انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی حصہ لیا اور انہی کے جوائنٹ سکریٹری جے پی سنگھ اس وقت قطر کے دارالحکومت میں انڈیا کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے مذاکرات کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا اور افغانستان کے مابین تاریخی تعلقات اور تعاون پر بات کی۔ انھوں نے زور دیا کہ امن مذاکرات میں افغان خواتین اور اقلیتوں کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

یہ مذاکرات افغانستان اور اس کے ہمسائیوں سمیت انڈیا کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ افغانستان میں طالبان کا مضبوط ہونا انڈیا کے لیے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے۔

تاریخی طور پر طالبان کی پاکستان کے ساتھ قربت ہے اور انڈیا، پاکستان کے سرد تعلقات کوئی راز کی بات نہیں۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کوششوں کی وجہ سے وہ دن آ گیا جس کا برسوں سے افغان عوام کو انتظار تھا۔

انڈیا کے لیے افغانستان کی اہمیت

انڈیا نے برسوں سے افغانستان میں تعلیم، صحت، بنیادی سہولیات کو بہتر بنانے میں مدد کی ہے اور نئی دہلی نےیہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔

افغانستان میں پارلیمان کی نئی عمارت بنانے کے علاوہ انڈیا وہاں ڈیموں، سڑکوں، تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی تعمیر کے منصوبوں سے بھی وابستہ رہا ہے۔

انڈین وزارت خارجہ کے مطابق افغانستان میں اس وقت تقریبا 1700 انڈین موجود ہیں جو وہاں واقع ہسپتالوں، بینکوں اور سکیورٹی اور آئی ٹی کے شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیوں میں بھی کام کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ سٹریٹجک سطح پر اور ملک کی سلامتی کے لحاظ سے بھی افغانستان میں انڈیا کی گرفت کمزور ہونا مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔

انڈیا کے ساتھ تعلقات پر اثرات

افغان امن مذاکرات میں جنگ بندی اور امن کے بعد کے انتظامات پر فیصلہ ہونا ہے۔

افغانستان میں بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت کو مذہبی آزادی، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور صحافت کی آزادی جیسی اپنی کامیابیوں کا طالبان کے ساتھ مذاکرات میں دفاع کرنا چاہیے۔

لیکن طالبان کا ان امور پر موقف سخت ہے اور وہ شریعت کے نفاذ کے حق میں ہیں۔ اس کے اشارے اس بات سے بھی مل رہے ہیں کہ طالبان کی نمائندگی ایک مذہبی عالم شیخ عبدالحکیم کر رہے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر طالبان اسلامی قانون کے نفاذ کے اپنے مطالبے پر قائم رہے یا اگر اس پر اتفاق رائے ہوا تو یہ انڈیا کے لیے بہت بری خبر ہوگی۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سینٹر برائے ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے کے بھاردواج کا کہنا ہے ‘طالبان ہمیشہ سے ہی اسلامی قانون کے نفاذ کے حق میں رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ جنگ بندی پر راضی ہوں لیکن جمہوری آئینی حکومت کے لیے ان کا تیار ہونا مشکل ہے۔ ایسی صورتحال میں دونوں ممالک کے باہمی تعاون پر اثر پڑے گا اور ساتھ ہی ساتھ انڈیا کی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہوگا۔

‘انڈیا ہمیشہ سے ہی انتہاپسندی کا شکار رہا ہے اور طالبان نے بھی انڈیا مخالف انتہا پسند دھڑوں کی حمایت کی ہے۔ اگر افغانستان میں سخت گیر طاقتیں مضبوط ہوتی ہیں تو انڈیا کے ساتھ باقی جنوبی ایشیاء کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہ ممالک پہلے بھی انتہا پسندی کا سامنا کرتے رہے ہیں۔’

انڈیا اور طالبان کا بدلتا موقف

انڈیا یہ کہتا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں ایک پرامن، مستحکم، محفوظ اور جمہوری حکومت چاہتا ہے اور دہلی نے ان مذاکرات کا خیرمقدم بھی کیا ہے۔ لیکن انڈیا نے یہ بھی کہا کہ یہ مذاکرات افغان حکومت کی قیادت اور کنٹرول میں ہونے چاہییں۔

انڈیا اور افغانستان کے درمیان ایک طویل عرصے سے دوستانہ تعلقات ہیں لیکن انڈیا ہمیشہ ہی طالبان حکومت کا مخالف رہا ہے۔ انڈیا نے کبھی بھی طالبان سے ملنے کی حمایت نہیں کی کیونکہ اس کا موقف ہے کہ اچھے طالبان اور برے طالبان جیسا کچھ نہیں ہے۔

تاہم حالیہ دنوں میں طالبان کے بارے میں انڈیا کے رویہ میں تبدیلی آئی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے اور کیا اس تبدیلی سے دونوں کے تعلقات پر کوئی اثر پڑے گا۔

سابق سفیر اشوک سججنہار کا کہنا ہے کہ اب صورتحال بدل رہی ہے اور طالبان کا رویہ پہلے کے مقابلے میں بھی نرم ہے اور انڈیا کے رخ میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اس کا آغاز نومبر سنہ 2018 میں ہوا تھا جب روس میں طالبان کو بلایا گیا تھا۔ اس کے بعد انڈیا سے دو رٹائرڈ سفارتکار مبصر کی حیثیت سے اس میں شامل ہوئے تھے۔

اشوک سجنجہار نے کہا: ‘اب جو طالبان ہیں وہ 1990 کی دہائی کے طالبان سے مختلف ہیں۔ وہ ایک اسلامی ملک بھی چاہتے ہیں اور اس میں دوسروں کی شمولیت کی بات بھی کرتے ہیں۔ انھیں بھی بین الاقوامی قبولیت کی ضرورت ہے۔ پھر انڈیا کو افغانستان میں زمینی سطح پر لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ کوئی دوسرا ملک وہ کام نہیں کر سکے گا جو انڈیا نے وہاں کیا ہے۔ اگر دوسری حکومت بھی آجائے تو وہ اس چیز کو نظرانداز نہیں کرسکے گی۔’

دوسری جانب سنجے بھاردواج کا خیال ہے کہ یہ ساری چیزیں ایسی حکومت کے لیے درست ہیں جو جمہوری ہے اور جو جوابدہ ہے۔ لیکن اگر طالبان اسلامی قانون کی پیروی کرتا ہے اور آمرانہ رویہ اپناتا ہے تو اس کی جوابدہی نہیں ہوگی۔ ایسی صورتحال میں مذاکرات کون سا رخ اختیار کرتی ہے یہ بات اہم ہوگی۔

چین سے متعلق تشویش

انڈیا کی تشویش نہ صرف طالبان اور ان کے تعلقات کے بارے میں ہے۔ ان تعلقات میں پاکستان اور چین کا کردار بھی اہم ہوجاتا ہے۔ چین بھی افغانستان میں تانبے اور لوہے کی کانوں میں سرمایہ کاری کرتا رہا ہے۔ وہ ون بیلٹ ون روڈ اسکیم کے تحت بہت سارے ممالک پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔

اسی کے ساتھ چین-پاکستان اور طالبان-پاکستان کی قربت بھی واضح ہے۔ ایسی صورتحال میں چین پاکستان کی مدد سے طالبان کے ساتھ قربت بڑھا سکتا ہے جو انڈیا کے لیے بڑا چیلنج بن ہوگا۔

اشوک سججنہار بھی اس سے کسی حد تک متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘چین یقینی طور پر افغانستان میں ایک کھلاڑی ہوگا۔ نئے نظام میں وہ بھی افغانستان میں اپنا اثروروسخ بڑھانے کی کوشش کرے گا۔ چین نے ماضی میں وہاں سرمایہ کاری کی ہے لیکن وہاں زیادہ کام نہیں کر سکا ہے۔ جبکہ انڈیا نے زمینی سطح پر کام کیا ہے۔ انڈیا دوسرے ملک کی فکر کیے بغیر اپنی طاقت پر کام کرے گا۔’

پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے اشوک سججنہار کا کہنا ہے کہ اگر طالبان بالکل پاکستان کی خواہش کے مطابق کام کرتا ہے تو انڈیا کے لیے پریشانی پیدا ہوسکتی ہے۔ لیکن میرا خيال ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کچھ رواداری برتے گا اور وہ اپنے مطابق حکومت چلائیں گے۔ کسی بھی حکومت کی طرح وہ بھی دوسرے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہے گا۔

ان سب کے درمیان کچھ ماہرین یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ ان مذاکرات سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ امریکی انتخابات سے قبل یہ محض ایک مشق ہے۔ کیونکہ نائن الیون کا سامنا کرنے کے بعد امریکہ افغانستان کو کبھی بھی طالبان کے حوالے نہیں کرے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here