موٹروے ریپ کیس: وزیر اعلیٰ پنجاب کے مطابق ایک ملزم کی گرفتاری کے بعد اس کا ڈی این اے میچ ہوگیا ہے

0

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزادر کا کہنا ہے کہ موٹر وے پر خاتون کے ریپ کے مقدمے میں مطلوب ملزمان میں سے ایک شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر وزیر اعلی پنجاب نے تفصیل بتاتے ہوئے لکھا کہ ’سیالکوٹ موٹروے کے دلخراش واقعہ میں خاتون سے زیادتی میں ملوث شخص گرفتار ہو چکا ہے۔‘

وزیر اعلی کے بقول گرفتار شخص کا ’ڈی این اے بھی میچ کر چکا ہے اور اس نے اعتراف جرم بھی کر لیا ہے۔‘

ان کے بقول مقدمے میں مطلوب دوسرے ملزم کی گرفتاری کے لیے بھی ’ہماری ساری ٹیم مسلسل کوشاں ہے جس کی گرفتاری انشاء اللہ جلد متوقع ہے‘۔

اس سے پہلے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان نے موٹروے ریپ کیس کے حوالے سے دائر ہونے والی ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ ایسے واقعات پر حکومتوں کو معافی مانگنی چاہیے اور متاثرہ افراد کو ہرجانہ دینا چاہیے۔

لاہور ہائی کورٹ مقامی وکیل ندیم سرور کی درخواست پر کارروائی کر رہی تھی جس میں واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

صحافی عباد الحق کے مطابق عدالت نے اس معاملے کی سماعت 16 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے حکام سے موٹروے واقعے پر ہونے والی تفتیش اور پنجاب میں سٹرکوں اور شاہراؤں پر لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پر تفصیلی رپورٹس بھی طلب کر لی ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک کی ایک بچی (متاثرہ خاتون) اس اعتماد کے ساتھ نکلی ہو گی کہ وہ موٹروے پر محفوظ رہے گی۔ انھوں نے کہا کہ متاثرہ خاتون اور ان کے بچے ساری زندگی جس کرب میں مبتلا رہیں گے اس کا اندازہ کسی کو نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب وقت آ گیا ہے اور اب کسی کو معافی نہیں ملے گی، سب کچھ قانون کے مطابق ہو گا اور کوئی ماورائے قانون نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر میڈیا سے درخواست کی کہ وہ ان معاملات کو رپورٹ نہ کرے جو ملزم کو فائدہ دے سکتا ہے۔

سی سی پی او

سی سی پی او عمر شیخ کی عدالت میں پیشی

پیر کی صبح اس کیس میں ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو دوپہر ایک بجے عدالت طلب کرتے ہوئے استفسار کیا تھا کہ یہ کیسی انکوائری ہے جس میں محکمے کا سربراہ مظلوم کو غلط کہنے پر تُل گیا ہے۔

سی سی پی او کی لاہور ہائی کورٹ آمد پر جب صحافیوں کی جانب سے پوچھا گیا کہ انھوں نے آج صبح دوبارہ معافی کیوں مانگی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے پہلے دن ہی معافی مانگ لی تھی، مگر چونکہ وہ نہیں پہنچی تو میں نے آج دوبارہ مانگ لی۔‘

کیس کی سماعت کے دوران عمر شیخ روسٹرم پر آئے اور عدالت کو آگاہ کیا کہ موٹروے واقعے کے 20 منٹ بعد پولیس جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی۔

اس پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ جب متاثرہ خاتون کی جانب سے موٹروے ہیلپ لائن پر رابطہ کیا گیا تو انھیں بتایا گیا کہ وہ ہائی وے پولیس سے رابطہ کریں اور جب ہائی وے سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے متاثرہ خاتون کو مقامی پولیس سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی۔

سی سی پی او نے عدالت کو آگاہ کیا کہ بدقسمتی سے موٹروے پر سکیورٹی نہیں تھی اور جس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا وہاں پولیس تعنیات نہیں تھی۔

سی سی پی او کا کہنا تھا گذشتہ کچھ سالوں میں مزید موٹر ویز کی تعمیر ہوئی ہے اور ان کی حفاظت کے لیے پولیس کے پاس وسائل اور نفر ی کی کمی ہے۔

گجرپورہ کا وہ مقام جہاں واقعہ پیش آیا تھا
،تصویر کا کیپشنگجرپورہ کا وہ مقام جہاں واقعہ پیش آیا تھا

انھوں نے بتایا کہ یہ موٹروے دو ماہ پہلے فنکشنل ہوئی ہے اور اس پر کوئی سکیورٹی نہیں ہے، رنگ روڈ تک ہمارا دائرہ اختیار ہے جس کے بعد موٹر ویز پولیس کی ذمہ داری ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سکیورٹی کی ذمہ داری حکومتوں کی ہے اور انھیں اس حوالے سے فیصلہ کرنا تھا۔سی سی پی او نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اداروں میں کھچاؤ کی وجہ سے صورتحال بہتر نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاتون تو واقعے کے بعد خوفزدہ تھیں مگر موٹر وے انتظامیہ نے کیوں 15 پر کال نہیں کی۔

انھوں نے پوچھا کہ ڈولفن اہلکار کتنی دیر بعد جائے وقوعہ پر پہنچے؟ جس پر سی سی پی او نے بتایا کہ ڈولفن اہلکار 25 منٹ کے بعد آئے تو وہاں تاریکی کی وجہ سے انھوں نے ہوائی فائر کیے اور جب خاتون نے مدد کے لیے آواز دی تو ڈولفن اہلکار ان تک پہنچے۔

سی سی پی او نے بتایا کہ خاتون سہمی ہوئی تھیں اور انھوں نے اپنے بچوں کو سینے سے لگایا ہوا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ بروقت کارروائی کی اور خاتون کو فوری طور پر ہسہتال لے جایا گیا جس کے کچھ ہی دیر بعد خاتون میڈیکل کروانے پر قائل ہو گئیں۔

سی سی پی او نے عدالت کے سامنے اس امید کا اظہار کیا کہ کیس ٹریس ہو گیا اور یہ دو، تین دن میں حل ہو جائے گا۔

انھوں نے بتایا کہ متاثرہ خاتون سے ملزمان کا حلیہ بھی پوچھا گیا جس کے فوری بعد پولیس نے اپنا کام شروع کر دیا۔ ’مخصوص حلیے کے 53 افراد کو گرفتار کیا گیا، جیو فینسنگ بھی کی گئی۔‘

لاہور ہائی کورٹ
،تصویر کا کیپشن’شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے اور کوئی بھی قانون سے ماورا نہیں ہے‘

سی سی پی او نے آگاہ کیا کہ ایک ملزم عابد کا ڈی این اے میچ کر گیا ہے اور یہ شخص اس سے قبل بھی ایک ماں بیٹی کے ساتھ زیادتی کر چکا ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ملزم وقار کے ساتھ عابد کے تعلقات تھے، اور وقار کی لوکیشن بھی جائے وقوعہ کی آ رہی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ملزم نے ڈیرے پر آتی گاڑیاں دیکھ لیں تھیں اور ملزم نے ہاتھ پر پٹی بھی باندھی ہوئی تھی، ملزم وقار ہمارے سامنے پیش ہو گیا ہے اور اس نے پولیس کو بیان دیا ہے۔

سماعت کے دوران ایک موقع پر سی سی پی او کا کہنا تھا کہ ’خدا کی قسم ہمیں پولیس والوں کو سزائیں دیں تاکہ ہم ٹھیک ہوں۔‘

یاد رہے کہ سی سی پی او لاہور نے گذشتہ ہفتے موٹروے پر پیش آنے والے ریپ کے واقعے کے بعد متعدد ٹی وی چینلز پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ: ’تین بچوں کی ماں اکیلی رات گئے اپنے گھر سے اپنی گاڑی میں نکلے تو اسے سیدھا راستہ لینا چاہیے ناں؟ اور یہ بھی چیک کرنا چاہیے کہ گاڑی میں پیٹرول پورا ہے بھی یا نہیں۔۔۔‘

پیر کی صبح عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے کے بعد سی سی پی او نے گورنر پنجاب محمد سرور سے ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا کوئی غلط مطلب نہیں تھا۔

’اگر اس میں کوئی غلط فہمی ہوئی میری وجہ سے تو میں تہہ دل سے اپنی بہن سے، جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، معذرت کرتا ہوں اور تمام ان طبقات سے جہاں یہ ایک رنج و غم اور غصے کی کیفیت (پائی جاتی ہے)، ان سب سے میں معذرت چاہتا ہوں۔‘

واضح رہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب پیش آنے والے ایک واقعے کے دوران دو افراد نے مبینہ طور پر مدد کے انتظار میں سڑک کنارے کھڑی گاڑی میں سوار خاتون کو پکڑ کر قریبی کھیتوں میں اُن کے بچوں کے سامنے ریپ کیا تھا۔

پنجاب
،تصویر کا کیپشنپولیس ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر ریپ کا شکار ہونے والی خاتون کی گاڑی کے دروازے سے ملزمان کے خون کے نمونے بھی ملے تھے

تحقیقات کہاں تک پہنچیں؟

پنجاب کے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس کیس میں نامزد دو ملزم اب پولیس کی تحویل میں ہیں اور ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔

پولیس ذرائع نے نامہ نگار ترہب اصغر کو بتایا کہ مقدمے میں نامزد ملزم وقار کے سالے عباس نے شیخوپورہ میں گرفتاری دے دی ہے۔

اطلاعات کے مطابق اس نے بھی دعوی کیا ہے کہ اس کا کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ پولیس ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ عباس سے تفتیش کے بعد اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جائے گا۔

اس سے قبل ملزم وقار اپنے والدین اور اہلِ خانہ کے ہمراہ اتوار کی صبح لاہور کے ماڈل ٹاؤن تھانے میں پیش ہوا جہاں دیے گئے بیان میں اس نے کہا ہے کہ اس کا ریپ کے اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔

ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ملزم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ وہ ماضی میں مرکزی ملزم کے ساتھ وارداتوں میں ملوث رہا ہے تاہم اس ریپ کے واقعے سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ موبائل نمبر جس کا ذکر پولیس حکام نے کیا اس کے زیر استعمال ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق ملزم کا ڈی این اے حاصل کر کے اسے تجزیے کے لیے بھیج دیا گیا ہے اور نتیجہ آنے کے بعد ہی اس بارے میں مزید تفصیلات سامنے آئیں گی۔

گذشتہ روز صوبے کے وزیراعلیٰ کی سربراہی میں اعلیٰ حکام کی پریس کانفرنس میں پولیس کی تحویل میں موجود ملزم کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ دو ہفتے قبل ہی ضمانت پر رہا ہوئا تھا اور غالب امکان ہے کہ وہ وقوعے کے وقت مرکزی ملزم کے ساتھ موجود تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here