حال ہی میں بھارت اور امریکہ نے ایک مشترکہ بیان میں جاری کیا جس میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوری کارروائی کرے اور اس بات کو یقینی بنائےکہ پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کی کسی بھی قسم کی کاروائی کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی۔اس بارے میں گیارہ ستمبر کو ایک پریس کانفرنس میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان چاو لی جیان نے کہا کہ دہشت گردی دنیا کے تمام ممالک کو درپیش ایک مشترکہ چیلنج ہے
پاکستان نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے زبردست کوششیں کیں اور بے حد قربانیاں دی ہیں۔عالمی برادری کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ تمام ممالک کو باہمی احترام ، مساوات اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی تعاون کرنا چاہیے ، اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے مل کر کام کرنا
چاہیے۔
دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں اپنے وسائل کے مطابق کٹھن جدوجہد کی ہے جس کی قیمت اس کی معیشت نے ادا کی ہے۔ اس کے علاوہ ، ہزاروں افراد اور سکیورٹی اہلکاروں نے انسداد دہشت گردی کی اس جنگ میں اپنی جانیں قربان کی ہیں ۔تاہم یہ پہلی بار نہیں ہے کہ امریکہ نےانسداد دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان پر نکتہ چینی کی ہے۔یاد رہے کہ جنوری دو ہزار اٹھارہ میں امریکی صدر ٹرمپ نے نئے سال کے “پہلے ٹوئیٹ” میں پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ پاکستان پچھلے کچھ سالوں سے “صرف امریکہ سے رقم لے رہا ہے لیکن کوئی کام نہیں کر رہا ہے”۔ ٹرمپ کا دعوی ہے کہ پاکستان ہر سال امریکی امداد وصول کرتا ہے ، لیکن پاکستان ناصرف یہ کہ افغانستان میں انسداد دہشت گردی کی
امریکی کارروائیوں میں اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتا بلکہ دہشت گردوں کو پناہ بھی فراہم کرتا ہے۔امریکی صدر کے اس بیان پر پاکستان کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ۔پاکستانی حکومت نےواضح الفاظ میں کہا کہ افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے امریکہ کو مشکل صورتحال کا سامنا ہےاور وہ بار بار اس ناکامی کا ذمہ پاکستان پر ڈال رہا ہے ۔ ٹرمپ کے الزامات ، افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ میں پاکستان کے کردار ،اس کی قربانیوں اور اس کے لیے پاکستان کو کیا قیمت چکانی پڑی، ان سب سے ٹرمپ کی ناواقفیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
امریکہ کی طرف سے بارہا انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں پاکستان پر تنقید و نکتہ چینی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ اس بارے میں بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان اور بر صغیر میں انسداد دہشت گردی کی جنگ کے لیے نیا راستہ تلاش کرنے میں “امریکہ – ہندوستان افغانستان” پر مشتمل ایک نیا مثلث بنانے کا عزم رکھتی ہے۔اس لئے اسامہ بن لادن کے پاکستان میں مارے جانے کے بعد سے ، امریکہ اور مغربی ممالک کے میڈیا یک دم پاکستان پر انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تنقید کرنے لگے ، یہاں تک کہ انسداد دہشت گردی کے لیے پاکستان کی تمام قربانیوں کو رد کرنے کی کوشش کی گئی اور پاکستان پر دہشت گردوں کو امداد دینے اور پناہ دینے کی افواہوں کوبھی ہوا دی جانے لگی ۔
انسداد دہشت گردی کی بین الاقوامی صورتحال اب بھی تشویشناک ہے اور دہشت گردی کے بے شمار واقعات ہو رہے ہیں ، جس سے تمام ممالک کی سلامتی اور استحکام کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ پاکستان دہشت گردی کی سخت مخالفت کرتا ہے ۔ اس سے پاکستانی عوام کو بد ترین جانی و مالی نقصانات پہنچے ہیں اور دہشت گرد ی کے خلاف جنگ میں بے شمار پاکستانی فوجیوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ انسداد دہشت گردی کے معاملات پر دوہرا معیار نہیں اپنایا جانا چاہیے ، اور دہشت گردی کو مخصوص نسلی گروہوں اور مذاہب سے منسوب کرنا ناقابل قبول ہے ۔ جیسا کہ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان چاو لی جیان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ہمیں امید ہے، امریکہ یہ نہیں بھولے گا کہ دہشت گردی اور نوول کورونا وائرس انسانیت کے مشترکہ دشمن ہیں ، چین اور پاکستان، امریکہ کے دشمن نہیں ہیں۔