پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرنے والے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کا استعفیٰ قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے انھیں کام جاری رکھنے کو کہا ہے۔
وزیرِ اعظم پاکستان کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق لیفٹینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے جمعے کو وزیر اعظم عمران خان کو اپنا استعفی پیش کیا جو وزیر اعظم نے قبول نہیں کیا۔
بیان میں بتایا گیا ہے کہ ’وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے جو ثبوت اور وضاحت پیش کی گئی ہے وہ اس سے مطمئن ہیں لہٰذا وزیر اعظم نے انھیں بطور معاون خصوصی کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ نے جمعرات کو نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اپنا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے سربراہ کے طور پر کام کرتے رہیں گے۔
جمعرات کی شب اس اعلان سے کچھ دیر پہلے انھوں نے صحافی احمد نورانی کی خبر میں کیے گئے دعوؤں کو ‘غلط’ اور ‘جھوٹا’ قرار دیتے ہوئے تفصیلی وضاحت جاری کی تھی۔
انھوں نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں معاونِ خصوصی کا عہدہ چھوڑنے کے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ جمعے کی صبح اپنا استعفیٰ وزیر اعظم کے سامنے رکھ دیں گے۔
انھوں نے کہا کہ انھوں نے اپنی فیملی کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا ہے اور وہ مکمل توجہ سی پیک منصوبے پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ احمد نورانی کی خبر سامنے آنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، مسلم لیگ (ن) کی مرکزی نائب صدر مریم نواز، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے مطالبہ سامنے آیا تھا کہ عاصم باجوہ اور عمران خان کی جانب سے اس حوالے سے جواب دیا جانا چاہیے۔
عاصم سلیم باجوہ نے جمعرات کو ٹوئٹر پر جاری کردہ چار صفحوں پر مشتمل بیان میں کہا ہے کہ ان پر الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ انھوں نے بتاریخ 22 جون 2020 کو وفاقی حکومت میں بطور وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی جو اثاثوں کی تفصیلات جمع کروائی ہیں وہ غلط ہیں کیونکہ اس میں انھوں نے بیرونِ ملک اپنی اہلیہ کی سرمایہ کاری کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور یہ کہ ان کے بھائیوں کے امریکہ میں کاروبار کی ترقی کا تعلق پاکستانی فوج میں ان کی ترقی سے ہے، جبکہ ان کے بھائیوں اور بچوں کی کمپنیوں، کاروباروں اور جائیدادوں کا بے محل تذکرہ کر کے ان کی قیمت اور ملکیت کے بارے بے دریغ الزامات لگائے گئے ہیں۔Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1https://platform.twitter.com/embed/index.html?creatorScreenName=bbcurdu&dnt=false&embedId=twitter-widget-0&frame=false&hideCard=false&hideThread=false&id=1301528438633902082&lang=ur&origin=https%3A%2F%2Fwww.bbc.com%2Furdu%2Fpakistan-54015050&siteScreenName=bbcurdu&theme=light&widgetsVersion=219d021%3A1598982042171&width=550px
عاصم باجوہ کا کہنا ہے کہ ان پر یہ الزام درست نہیں کہ انھوں نے اپنی اہلیہ کے کاروبار کی تفصیلات بطور مشیرِ اطلاعات جاری کیے گئے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات 22 جون 2020 کو ظاہر کیں لیکن ان کی اہلیہ چند ہفتے قبل ان کے بھائیوں کے غیرملکی کاروبار سے الگ ہو چکی تھیں اور انھوں نے اپنی سرمایہ کاری یکم جون 2020 کو نکال لی تھی یوں اثاثے ظاہر کرنے کے دن وہ ان کمپنیوں میں سرمایہ کار یا حصص کی مالکہ نہیں تھیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی اہلیہ کی کاروبار سے علیحدگی کا ذکر امریکہ میں دستاویزات میں باضابطہ طور پر موجود ہے۔
واضح رہے کہ جولائی میں جاری کیے گئے اثاثہ جات کی فہرست میں عاصم باجوہ نے اپنی اہلیہ کے نام پر ‘خاندانی کاروبار’ میں صرف 31 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری ظاہر کی اور اس حلف نامے کے آخر میں تصدیق کی کہ ‘میری، اور میری بیوی کی اثاثہ جات کی فہرست نہ صرف مکمل اور درست ہے بلکہ میں نے کوئی چیز نہیں چھپائی۔’
عاصم باجوہ نے مزید کہا کہ سنہ 2002 سے لے کر یکم جون 2020 تک یعنی اٹھارہ سال کے عرصے میں ان کی اہلیہ نے امریکہ میں اُن کے بھائیوں کے کاروبار میں کُل 19 ہزار 492 ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ سرمایہ کاری ان (عاصم باجوہ) کی بچت کردہ رقم سے کی گئی اور ان سب کا حساب موجود ہے، اور اس سرمایہ کاری میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے قواعد و ضوابط کی ‘ایک مرتبہ بھی’ خلاف ورزی نہیں کی گئی۔
سابق فوجی جنرل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صحافی احمد نورانی کی خبر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ باجکو گلوبل مینیجمنٹ درحقیقت باجکو سے منسلک تمام کاروباروں کی سرپرست کمپنی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ‘حقیقت سے پرے’ ہے کیونکہ باجکو گلوبل مینیجمنٹ کسی کمپنی کی سرپرست نہی بلکہ صرف ایک مینیجمنٹ کمپنی ہے جو باجکو سے منسلک تمام کاروبار کو فیس کے بدلے ‘مینیجمنٹ کی خدمات’ فراہم کرتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ خبر لکھنے والے نے ‘جھوٹا دعویٰ’ کیا ہے کہ باجکو 99 کمپنیوں کی مالک ہے جبکہ فہرست میں کئی کمپنیوں کو ‘متعدد بار’ گنا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ میں 27 اور متحدہ عرب امارات میں دو فعال کمپنیاں ہیں۔
پاپا جونز کیسے خریدی گئی؟
پاپا جونز پیزا چین میں اپنے بھائیوں کی سرمایہ کاری کو تسلیم کرتے ہوئے عاصم باجوہ نے لکھا کہ سنہ 2002 سے اب تک ان کے بھائیوں نے یہ فرنچائز اور اس سے منسلک اثاثے اور زمینیں سات کروڑ ڈالر کی قیمت پر خریدیں اور 18 برس میں ان کے بھائیوں اور اہلیہ نے اپنی جیب سے اس کاروبار میں صرف 73 ہزار 950 ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں سے ان کی اہلیہ کا حصہ 19 ہزار 492 ڈالر ہے، چنانچہ اس کاروبار میں ان کے پانچ بھائیوں کی سرمایہ کاری 54 ہزار 458 ڈالر رہی ہے۔
عاصم باجوہ کا دعویٰ ہے کہ اس کاروبار کے لیے تقریباً چھ کروڑ ڈالر بینکوں سے قرضوں اور دیگر مالی سہولیات کے ذریعے حاصل کیے گئے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ان کے پانچ بھائیوں اور ان کی اہلیہ کے علاوہ ان کاروباروں میں 50 دیگر سرمایہ کار بھی شامل ہیں۔
‘بیٹوں کے نام پر موجود کمپنیاں غیر فعال’
اپنے بیٹوں کے کاروبار کے حوالے سے لگائے گئے الزامات پر عاصم باجوہ نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے بیٹوں کے نام پر کمپنیاں موجود ہیں تاہم انھوں نے زیادہ تر کمپنیوں کے بارے میں دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے سرے سے کبھی کوئی کاروبار کیا ہی نہیں۔
ایک کمپنی ہمالیہ پرائیوٹ لمیٹڈ کے بارے میں انھوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے بیٹے کے پاس کمپنی کے 50 فیصد حصص ہیں تاہم انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس ‘بہت چھوٹی سی’ کمپنی نے گذشتہ تین سالوں میں ‘پانچ لاکھ روپے سے کم’ مجموعی منافع کمایا ہے۔
عاصم باجوہ کے بیان کے مطابق ان کے ایک بیٹے موچی کورڈوائنرز نامی کمپنی کے تنہا مالک ہیں لیکن یہ گذشتہ پانچ سالوں سے خسارے میں ہے۔
ان کے مطابق ان کے بیٹوں کی کمپنیوں شائیون بلڈرز اینڈ اسٹیٹس پرائیوٹ لمیٹڈ، کرپٹون، شائیون نیچورا ایل ایل سی اور ایڈوانس مارکیٹنگ پرائیوٹ لمیٹڈ نے کبھی کوئی کاروبار نہیں کیا۔
چند ماہ قبل شائیون بلڈر نامی کمپنی کی یوٹیوب پر شائع کی جانے والی ایک ویڈیو میں عاصم باجوہ کے ایک بیٹے خود کمپنی کے کاروبار کی تفصیلات دی تھیں۔ اس بارے میں جیو ٹی وی کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں بات کرتے ہوئے عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ یہ ان کے بیٹے کی ایک اور کمپنی ہے جس کے بارے میں انھوں نے اپنے بیان میں اس لیے ذکر نہیں کیا کیونکہ احمد نورانی کی خبر میں بھی اس کا ذکر نہیں تھا۔
امریکہ میں اپنے بیٹے کے گھر کے حوالے سے عاصم باجوہ نے کہا کہ ان پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کے بیٹے کی کمپنی شائیون مینیجمنٹ گروپ ایل ایل سی کی ملکیت میں امریکہ میں ایک گھر ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ گھر صرف 31 ہزار ڈالر کی رقم سے ایک نیلامی کی کارروائی میں خریدا گیا اور یہ 31 ہزار ڈالر کی رقم ان کے دو بیٹوں کے ‘آزادانہ ذریعہ آمدنی’ کے تحت مکمل طور پر قابلِ توجیہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘یہ ایک چھوٹا گھر ہے۔’
‘بھائیوں کی کمپنی کو سی پیک کے ٹھیکے نہیں ملے’
سابق عسکری ترجمان جو اس وقت سی پیک اتھارٹی کے سربراہ بھی ہیں نے کہا کہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کے دو بھائیوں کی کمپنی سلک لائن انٹرپرائزز پرائیوٹ لمیٹڈ کو سی پیک کے ٹھیکوں کے حصول کے لیے قائم کیا گیا ہے، تاہم انھوں نے کہا کہ اس کمپنی نے کبھی سی پیک کا کوئی ٹھیکہ حاصل نہیں کیا۔
انھوں نے کہا کہ یہ کمپنی صرف رحیم یار خان کے علاقے میں موجود صنعتوں کو افرادی قوت فراہم کرتی ہے۔
عاصم باجوہ نے مزید کہا کہ ان کے ایک بیٹے کا امریکہ میں ایک گھر ہے مگر یہ رہن کے ذریعے ایسے حاصل کیا گیا ہے کہ 80 فیصد قرضہ یا رہن غیر ادا ہی رہتا ہے۔ انھوں نے اس گھر کے بارے میں بھی کہا کہ یہ ایک ‘چھوٹا گھر’ ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ان کے تمام بیٹے 18 سال سے زائد عمر کے ہیں، ان پر منحصر نہیں، امریکہ سے تعلیم یافتہ ہیں اور اعلیٰ تنخواہوں پر کام کرتے رہے ہیں۔