انڈیا اور چین کی سرحد پر دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان لداخ سیکٹر میں پینگونگ سو جھیل کے پاس ایک بار پھر چھڑپ ہوئی ہے۔ اس نئی جھڑپ کی خبر ایک ایسے وقت میں آئی ہے کہ جب دونوں افواج کے اعلیٰ اہلکار سرحد پر کشیدگی کم کرنے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔
انڈیا کی وزارت دفاع کی طرف سے پیر کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے 29 اور 30 اگست کی درمیانی رات کے دوران چینی فوج نے فوجی اور سفارتی سطح پر طے پانے والے معاہدے کی ‘خلاف ورزی’ کرتے ہوئے ‘سرحد پر موجودہ پوزیشن کو تبدیل کرنے کی اشتعال انگیز کوشش کی۔’
بیان میں کہا گیا کہ انڈین فوج نے پینگونگ سو جھیل کے جنوبی کنارے پر چینی فوج کے اس منصوبے کو ‘ناکام کر دیا ہے۔’
‘فوج نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے ہیں اور زمین پر یکطرفہ حقیقت بدلنے کے چینی عزائم کو ناکام کر دیا ہے ۔’
چین نے تاحال اس حوال سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
انڈین وزارت دفاع کے بیان میں مزید گہا گیا ہے کہ انڈین فوج بات چیت کے ذریعے سرحد پر امن و سکون برقرار رکھنے کی پابند ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ‘علاقائی سالیمت کا دفاع کرنے کی بھی پابند ہے ۔’
اس بیان میں یہ نہں بتایا گیا ہے کہ تازہ ترین چھڑپ کی نوعیت کیا تھی اور آیا اس جھڑپ میں کوئی ہلاکت ہوئی ہے یا نہیں۔
اس بیان سے یہ واضح ہے کہ یہ تصادم پینگونگ سو چیھل کے جنوبی کنارے پر ہوا ہے کیونکہ رواں سال جون میں جو ٹکراؤ ہوا تھا وہ اس کے شمالی سرے پر ہوا تھا۔
دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر یہ ٹکراؤ بڑی نوعیت کا تھا۔
گذشتہ جون میں اسی خطے کے علاقے وادی گلوان میں انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان ٹکراؤ میں انڈیا کے 20 فوجی ہلاک اور تقریباً 75 زخمی ہوئے تھے۔ اس جھڑپ کے بارے میں اطلاعات دھیرے دھیرے سامنے آئی تھیں۔
رواں کشیدگی میں یہ پہلا موقع ہے جب چینی فوجیوں سے چھڑپ کے بارے میں وزارت دفاع کی طرف سے دلی میں بیان جاری کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ بات ابھی واضح نہیں ہے کہ یہ جھڑپ سنیچر کی رات میں ہوئی لیکن سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ اس کے بارے میں کوئی بیان دو روز بعد ہی کیوں جاری کیا گیا۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ پینگونگ سو جھیل کے جس خطے میں چینی فوجیوں سے یہ چھڑپ ہوئی ہے وہ دفاعی نقطہ نظر سے بہت اہم ہے کیونکہ وہاں سے کچھ ہی دوری پر انتہائی اہم دولت بیگ اولڈی – شیوک روڈ گزرتی ہے۔ چین کی سرحد کے نزدیک واقع دولت بیگ اولڈی میں انڈیا کا فضائی اڈہ واقع ہے۔
انڈیا اور چین کا سرحدی تنازع کیا ہے؟
انڈیا اور چین کا سرحدی تنازع بہت پرانا ہے اور سنہ 1962 کی جنگ کے بعد یہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔
انڈیا اور چین کے درمیان تین ہزار 488 کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے۔ یہ سرحد جموں وکشمیر، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، سکم اور اروناچل پردیش میں انڈیا سے ملتی ہے اور اس سرحد کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے (مغربی سیکٹر یعنی جموں و کشمیر، مڈل سیکٹر یعنی ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ اور مشرقی سیکٹر یعنی سکم اور اروناچل پردیش۔)
انڈیا اور چین کے درمیان سرحد کی مکمل حد بندی نہیں ہوئی اور جس ملک کا جس علاقے پر قبضہ ہے اسے ایل اے سی کہا گیا ہے تاہم دونوں ممالک ایک دوسرے کے علاقے پر اپنا علاقہ ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں جو کشیدگی کا باعث بھی رہا ہے۔
انڈیا مغربی سیکٹر میں اکسائی چین پر اپنا دعویٰ کرتا ہے لیکن یہ خطہ اس وقت چین کے کنٹرول میں ہے۔ سنہ 1962 کی جنگ کے دوران چین نے اس پورے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔
دوسری جانب چین مشرقی سیکٹر میں اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ جنوبی تبت کا ایک حصہ ہے۔ چین تبت اور اروناچل پردیش کے مابین میک موہن لائن کو بھی قبول نہیں کرتا ہے۔
مجموعی طور پر چین اروناچل پردیش میں میک موہن لائن کو قبول نہیں کرتا اور اس نے اکسائی چین سے متعلق انڈیا کے دعوے کو مسترد کیا ہوا ہے۔