انڈیا کی سخت گیر ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ترجمان میگزن پانچجنیہ نے فلم اداکار عامر خان کی حب الوطنی پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک مضمون شائع کیا ہے۔ اس میں عامر خان کی چین سے محبت کا بھی ذکر ہے۔
پانچجنیہ نے اپنی کور سٹوری میں جہاں کچھ بالی وڈ اداکاروں کو وطن پرست قرار دیا ہے وہیں عامر خان جیسے کچھ اداکاروں کی حالیہ ‘سرگرمیوں’ کی وجہ سے ان کی حب الوطنی پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
مضمون میں لکھا گیا ہے ‘ایک طرف اکشے کمار، اجے دیوگن، جان ابراہم اور کنگنا رناوت سمیت کچھ دیگر فن کار اور فلم ساز بھی ہیں جن کے لیے قوم پرستی اور حب الوطنی سے بھرپور فلمیں بنانا یا ان کا کردار ادا کرنا ملک سے محبت کا اظہار کرنے کے مترادف ہے۔’
‘دوسری طرف عامر خان جیسے اداکار بھی ہیں جنھیں انڈیا کے دشمن سے دوستی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پھر خواہ بات دھوکہ باز چین کی ہو یا پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملا کر انڈیا کے خلاف جہادی منصوبہ پالنے والے ترکی کی ہو، جہاں ان دنون عامر خان نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔’
میگزین کے ایڈیٹر ہتیش شنکر نے معروف انگریزی اخبار دی ہندو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ سچ ہے کہ عامر خان نے ‘لگان’، ‘سرفروش’ اور ‘1857: دی رائزنگ’ جیسی فلمیں بنائیں لیکن وہ جو ابھی کر رہے ہیں وہ نیشنلزم کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔
ہیتش شنکر نے کہا: ‘عامر خان کی ترک صدر اردوغان کی اہلیہ سے ملاقات نے انڈیا میں لوگوں کے جذبات کو دھچکا پہنچایا ہے۔ اردوغان کی حکومت جموں و کشمیر کے معاملے پر انڈیا کے قانونی اقدامات کی مخالفت کر رہی ہے۔’
انھوں نے کہا؛ ‘ہم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ عامر خان دیگر فلمی اداکاروں کے مقابلے میں چین میں زیادہ مقبول کیوں ہیں؟ دنگل نے وہاں سلطان (سلمان کی فلم) کے مقابلے میں کیوں بہتر پرفارم کیا ہے جبکہ دونوں فلموں کے موضوعات ایک جیسے ہی ہیں۔ عامر خان کچھ مخصوص چینی برانڈز کی تشہیر کرتے ہیں اور چین میں کوئی بھی حکومت کی حوصلہ افزائی کے بغیر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔’
پانچجنیہ میں شائع ہونے والے اس مضمون کا عنوان ‘ڈریگن کا پیارا خان’ ہے۔
اس مضمون میں بھی یہ لکھا گیا ہے کہ ‘چین کے لیے خان کی محبت پہلے ہی سے شکوک و شبہات کی زد میں ہے، ایسے میں ترکی کے ساتھ ان کا میل ملاپ کیا پیغام دیتا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔’
مضمون میں کچھ سال قبل ایک ایوارڈ تقریب میں عامر خان کے اس بیان کا بھی ذکر ہے جس میں انھوں نے ملک میں عدم برداشت بڑھنے کی بات کہی تھی۔
اس وقت عامر خان نے کہا تھا: ‘میری اہلیہ کرن راؤ کو انڈیا میں ڈر لگتا ہے۔ انڈیا میں عدم رواداری میں اضافہ ہو رہا ہے۔’
اس وقت بھی سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیموں نے اسے سیاست سے متاثر بیان قرار دیا تھا۔
اس مضمون میں عامر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا گیا ہے ‘انڈیا میں جب لوگ کسی فلم سٹار کو بلندیوں پر پہنچاتے، ان کی فلموں پر بہت زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں، تو وہ ان کے مذہب کو نہیں بلکہ ان کی اداکاری کے معترف ہوتے ہیں۔ لیکن کیا ہو جب وہی انسان ملک کے لوگوں کے جذبات کو انگوٹھا دکھاتے ہوئے ان کی محبت کے بدلے میں پہلے مذہب پھر ملک کی جہادی سوچ کا مظاہرہ کرنے لگے، دشمن ملک کے چند پیسوں پر کٹھ پتلی کی طرح چلنا شروع کردے یا بے شرمی کے ساتھ دشمن ملک کی مہمان نوازی کو قبول کرنے لگے تو کیا ملک کے لوگ فریب زدہ محسوس نہیں کریں گے؟’