پیر کے روز پاکستان میں سرکاری ذرائع ابلاغ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان ہوں یا حکمران جماعت کے رہنماؤں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ۔۔۔ جہاں نظر دوڑائیں ‘دی مسلم 500’ کے 11ویں شمارے میں وزیرِ اعظم عمران خان کو بہترین شخصیت کا خطاب دیے جانے پر جشن کا سماں ہے۔
بظاہر ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے دنیا کے 500 بااثر مسلمانوں کی فہرست میں عمران خان کی شمولیت نے پاکستان کی سب مشکلات جھٹ سے ختم کر دی ہیں۔
تاہم سوشل میڈیا پر کچھ صارفین سوال کرتے نظر آئے کہ ’اس میں نئی بات کیا ہے؟ یہ تو پرانی خبر ہے۔‘
بی بی سی نے جب اس خبر کی تصدیق کی تو معلوم ہوا کہ دراصل یہ فہرست پہلی بار گذشتہ برس اکتوبر میں سامنے آئی تھی جب اردن کے دی رائل اسلامک سٹریٹجک سٹڈیز سینٹر نے ’دی مسلم 500‘ کے گیارہویں شمارے میں وزیراعظم عمران خان کو ’مین آف دی ایئر‘ یا سال 2020 کی بہترین شخصیت کا خطاب دیا تھا۔
اور تو اور، اس وقت حکمران جماعت کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی یہ خبر شیئر کی گئی تھی۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے سوشل میڈیا کے سربراہ محمد کامران نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیرِ اعظم عمران خان سے متعلق ڈیٹا اور ان کی بارے میں مشہور چیزیں بار بار شئیر کرنا ان کی سوشل میڈیا پالیسی کا حصہ ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ بظاہر اس معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے اور پرانی خبر اٹھا کر دوبارہ شیئر کر دی گئی ہے۔
پھر گذشتہ روز پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں عمران اسماعیل، زلفی بخاری، شریں مزاری، شہباز گل سے لے کر ریڈیو پاکستان، ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان، وزارتِ اطلاعات اور حکمران جماعت کے سرکاری ٹوئٹر ہینڈل سے یہ خبر دوبارہ شئیر کی گئی، جس کے بعد یہ اتنا پھیلی کہ ٹویٹر پر #PMIKMuslimManOfYear اور “The Muslim 500” رات گئے تک ٹرینڈ کرتے رہے۔
ان دونوں ٹرینڈز میں مجموعی طور پر اب تک تقریباً 60 ہزار سے زائد ٹویٹس کی جا چکی ہیں لیکن کسی نے یہ جاننا مناسب نہیں سمجھا کہ یہ فہرست دراصل مرتب اور شائع کب ہوئی۔ اور اس سے بڑھ کر شاید زیادہ اہم یہ بات ہے کہ ایک پاکستانی شخصیت اس فہرست میں اول نمبر پر ہیں لیکن وہ عمران خان نہیں ہیں!
یہ خبر دوبارہ آئی کہاں سے؟
اس وائرل خبر کے سلسلے کا آغاز ایک دن قبل اتوار کو اس وقت ہوا جب پاکستانی اخبار دی نیوز نے خبر شائع کی کہ اردن سے ہر سال شائع ہونے والے میگزین ’دی مسلم 500‘ نے رواں برس 2020 کے 11ویں شمارے میں پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کو ’مین آف دی ایئر‘ یا سال کی بہترین شخصیت کا خطاب دیا ہے۔
تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دی نیوز سے وابستہ ایک سینئیر صحافی کا کہنا تھا کہ کہ اتوار کی صبح دی نیوز میں یہ پرانی خبر دیکھ کر وہ بھی حیران رہ گئے۔
محمد کامران کا کہنا تھا کہ ’دی نیوز کے خبر شائع کرنے کے بعد ہم نے اسے دوبارہ ہائی لایٹ کیا ہے۔‘
وزیرِ اعظم عمران خان کو سنہ 2018 میں اقتدار میں آنے کے بعد انڈیا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی بہتری کی پیشکش، تنازعات کے پر امن حل اور امن و امان کے قیام کے حوالہ سے کیے گئے اقدامات کی وجہ سے سال کی بہترین شخصیت قرار دیا گیا تھا۔
میگزین نے امریکی کانگریس کی رکن رشیدہ طلیب کو ویمن آف دی ایئر کے اعزاز سے نوازا تھا۔
یاد رہے کچھ جریدے ایسی فہرستوں کا اجرا اشاعت سے بہت پہلے کر دیتے ہیں اور اس کی ایک مثال دی اکانومسٹ ہے۔ تاہم دی مسلم 500 کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا کہ فہرست گذشتہ سال بنا لی گئی ہو لیکن اسے شائع اب کیا جا رہا ہو۔
’دی مسلم 500‘ کیا ہے اور اس میگزین کا مقصد کیا ہے؟
’دی مسلم 500‘ میں دنیا بھر سے ہر سال 500 انتہائی بااثر مسلمان شخصیات کی فہرست شائع کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں میگزین کی پہلی اشاعت سنہ 2009 میں ہوئی تھی۔
میگزین کے چیف ایڈیٹر امریکی شہری عبداللہ سچلیفر ہیں جنھیں مشرقِ وسطیٰ کے امور کا ماہر بھی کہا جاتا ہے۔
اس فہرست کو اردن میں رائل اسلامی اسٹریٹجک اسٹڈیز سنٹر کی جانب سے مرتب کیا جاتا ہے اور امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان مفاہمت کے لیے الولید بن طلال سنٹر کے تعاون سے بنائے گئے ادارے کی جانب سے جاری کی جاتی ہے۔
بااثر مسلمان سے کیا مراد لی جاتی ہے؟
اس فہرست میں ایسے مسلمانوں کو شامل کیا جاتا ہے جو انتہائی بااثر ہیں، یعنی وہ افراد جن کے اثر و رسوخ کا باعث ان کا اسلام پر عمل پیرا ہونا یا یہ حقیقت کہ وہ مسلمان ہیں۔
تاہم شمارے میں یہ بھی درج ہے کہ کسی بھی اشاعت میں شامل افراد کے انتخاب کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جریدے کے مالکان و مدیران ان کے خیالات سے اتفاق یا ان کی توثیق کرتے ہیں۔
یہ اثر کسی ایسے دینی رہنما کا بھی ہو سکتا ہے جو براہ راست مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کے عقائد، نظریات اور طرز عمل کو متاثر کرے، یا یہ ایک ایسا حکمران بھی ہوسکتا ہے جو معاشرتی اور معاشی عوامل کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرے، یا یہ ثقافت کو تشکیل دینے والا کوئی فنکار بھی ہو سکتا ہے۔
میگزین کی اشاعت میں سنی، شیعہ اور عبادی فرقے اور ان کے ذیلی فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو نمائندگی دی گئی ہے تاہم دروز اور احمدیہ جماعت سے تعلق رکھنے والوں کو شامل نہیں کیا گیا۔
پہلے نمبر پر کون ہے؟
یقیناً کسی بھی مسلمان معاشرے میں دینی رہنماؤں اور حکمرانوں کے اثر و رسوخ سے انکار نہیں کیا جاسکتا، خاص طور پر حکمران کیونکہ بہت سے معاملات میں حکمران ہی دینی علما کو ان کے عہدوں پر مقرر کرتے ہیں۔
اسی لیے 500 مسلمانوں کی اس فہرست میں اور خاص طور پر پہلی 50 پوزیشنز پر دینی رہنماؤں اور ریاستی حکمرانوں کا غلبہ ہے۔
لیکن کیا آپ کو معلوم ہے سرِ فہرست 50 افراد میں اول نمبر پر ایک پاکستانی شخصیت ہیں اور وہ شخصیت وزیرِ اعظم عمران خان نہیں ہیں۔
جی ہاں! پاکستان سے تعلق رکھنے والے مفتی تقی عثمانی اس فہرست میں اول نمبر پر ہیں جبکہ وزیرِ اعظم عمران خان 16ویں نمبر پر ہیں۔
اس فہرست میں وزیرِ اعظم عمران خان سے پہلے آنے والے 15 رہنماؤں میں مفتی تقی عثمانی کے علاوہ ایران کے سید علی خامنائی، سعودی عرب کے شاہ سلمان، متحدہ عرب امارت کے شیخ محمد بن زید النہایان، اردن کے شاہ عبداللہ، ترکی کے صدر اردوغان، عراق کے سید علی سیستانی، یمن کے شیخ الحبیب، عمان کے سلطان قابوس، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حامد اور انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو شامل ہیں۔
ان 50 شخصیات کے علاوہ باقی 450 مسلمانوں کو کسی درجہ بندی کے بغیر 15 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: علمی، سیاسی، انتظامی، مبلغین اور روحانی رہنما، مخیر و خیراتی، ترقی، سماجی مسائل، بزنس، سائنس و ٹیکنالوجی، فنون و ثقافت، قرآن خوان، میڈیا، مشہور شخصیات اور کھلاڑی اور بنیاد پرست۔
مفتی محمد تقی عثمانی اور وزیراعظم عمران خان کے علاوہ پاکستان کی مسلح افواج کے چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، مولانا طارق جمیل، تبلیغی جماعت کے امیر مولانا نذر الرحمن، ملالہ یوسفزئی، اکبر ایس احمد، جاوید احمد غامدی، ڈاکٹر فرحت حسین اور ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی 500 بااثر مسلمان شخصیات کی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔