انڈیا کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی نے اعلان کیا ہے کہ وہ پارٹی کی صدارت سے مستعفی ہو رہی ہیں اور کہا ہے کہ ان کا جانشین چننے کا عمل شروع کیا جائے۔
اس پیش رفت کے بعد جماعت کے رہنماؤں کی دلی میں ملاقات ہوئی ہے جس میں یہ نکتہ زیر غور ہے کہ آیا سونیا گاندھی پارٹی کی صدر رہیں گی یا نہیں۔
سونیا گاندھی نے یہ اعلان مخالفین کی جانب سے ایک خط سامنے آنے کے بعد کیا جس میں ان کے ناقدین نے جماعت میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں اور اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔
انڈیا کی آزادی میں سرگرم رہنے والی کانگریس پارٹی نے انڈیا پر کئی دہائیوں تک حکمرانی کی تاہم حالیہ انتخابات میں ان کی مقبولیت گھٹتی نظر آئی۔
اسی وجہ سے پارٹی کی قیادت پر بھی گاندھی خاندان کی حمایت کرنے پر تنقید کی گئی ہے کیونکہ تقسیم ہند کے بعد سے جماعت کا رہنما گاندھی خاندان کا ہی کوئی فرد ہوتا ہے۔
سنہ 2014 کے انتخابات میں کانگریس کو وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھوں شکست ہوئی اور جماعت 543 اراکین کی پارلیمان میں صرف 44 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
اس کے بعد سے کانگریس کی مقبولیت میں بتدریج کمی آئی ہے اور کئی ایسی ریاستوں میں بھی اس کی طاقت کم پڑتی دکھائی دے رہی ہے جہاں وہ روایتی طور پر حکومت میں رہی ہے۔
سنہ 2019 کے انتخابات بھی کانگریس کے لیے زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھے اور کئی مبصرین کے مطابق اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جماعت انڈیا کے حالیہ وٹرز میں کتنی غیر مقبول ہو گئی ہے۔
اس وقت کانگریس کی صرف چھ ریاستوں میں حکومت ہے جن میں سے چار میں وہ مخلوت حکومت کا حصہ ہے۔
سونیا گاندھی کے نقادوں کا کیا مؤقف ہے؟
جماعت کے 23 سینیئر رہنماؤں کی جانب سے لکھے گئے خط نے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے کیونکہ یہ پہلا موقع ہے جب کانگریس کی اپنی قیادت نے اتنے عوامی انداز میں پارٹی میں کے اندر بڑے پیمانے پر اصلاحات متعارف کروانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کے پرانے اور نوجوان کارکنوں کے درمیان خلیج کتنا بڑا ہے۔
اطلاعات کے مطابق یہ خط گذشتہ ہفتے لکھا گیا لیکن اتوار کو منظر عام پر آیا جب اسے روزنامہ انڈین ایکسپریس نے شائع کیا۔
خط میں کانگریس رہنماؤں نے کئی مطالبے کیے ہیں جن میں ایک ’خودمختار انتخابی اتھارٹی‘ کا قیام اور جماعت کی تنظیم نو کے لیے رہنما اصول مرتب کرنے کے مطالبے شامل ہیں۔
اس خط پر مسلمان رہنما غلام نبی آزاد، منیش تیواری اور سابق وزرا ششی تھرور اور کپل سیبال شامل ہیں۔
سونیا گاندھی نے بھی خط پر فوری ردعمل دیتے ہوئے پارٹی کے نئے صدر کے انتخاب کا مطالبہ کیا ہے تاہم اب بھی جماعت میں کئی حلقے ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ سونیا گاندھی ہی پارٹی کی صدر رہیں۔
تاہم اطلاعات کے مطابق سونیا گاندھی نے پارٹی کی قیادت کو بتا دیا ہے کہ وہ صدارتی چھوڑنا چاہتی ہیں۔ انھوں نے یہ عہدہ 2019 میں عارضی طور اس وقت سنبھالا تھا جب ان کے صاحبزادے راہل انتخابات میں شکست کے بعد مستعفی ہوگئے تھے۔