چینی سفارت خانے نے سی پیک کے تحت 40 ارب امریکی ڈالرز قرض چین کو واپس کرنے کی رپورٹس کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
چینی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سی پیک چین اور پاکستان کے درمیان معاشی تعاون کا ایک اہم منصوبہ ہے اور سی پیک کے تمام منصوبے دونوں ملکوں کے درمیان اتفاق رائے کی بنیاد پر قائم ہوئے ہیں۔
سفارت خانے کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سی پیک کے تحت 22 ابتدائی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں یا تکمیل کے مراحل میں ہیں اور ان منصوبوں کی لاگت 18.9 ارب ڈالر زہے ۔ یہ منصوبے زیادہ تر انفراسٹرکچر کی تعمیر اور توانائی سے متعلق ہیں۔
چینی سفارت خانے نے بتایا کہ انفراسٹرکچر کے منصوبوں کیلئے پاکستان کو 5.874 ارب ڈالر ز کا رعایتی قرضہ دیا گیا اور حکومت پاکستان اس قرض کی واپسی 2021 سے شروع کرے گی۔
چینی سفارت خانے کے مطابق چینی کمپنیوں اور شراکت داروں نے پاکسان میں توانائی کے شعبے میں 12.8 ارب ڈالر زکی سرمایہ کاری کی ہے جس میں سے 9.8 ارب ڈالر زکمرشل بینکوں سے تقریباً 5 فیصد شرح سود پر لیے گئے ہیں اور حکومت پاکستان نے اس قرض کی واپسی سی پیک کے تحت نہیں کرنی۔
چینی سفارت خانے کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ چینی حکومت نے ایکسپریس ایسٹ بے گوادر کے لئے حکومت پاکستان کو بغیر سود قرض فراہم کیا ہے۔ اس کے علاوہ چینی حکومت نے عوام الناس کی زندگی کو بہتر بنانے کے منصوبوں کے لئے خصوصی مدد فراہم کی ہے ۔
لہذا پاکستان چین کو صرف 6.017ارب ڈالر زقرض واپس اور اس پر سود ادا کرے گا۔
چینی سفارت خانے کے مطابق نومبر 2018 میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین کے دوران دونوں ممالک نے سی پیک کے جاری منصوبوں کی جلد از جلد تکمیل کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔
اسی طرح دسمبر میں چین اور پاکستان کے درمیان سی پیک کے حوالے سے بیجنگ میں منعقد ہونے والی آٹھویں جے سی سی اجلاس میں سماجی، اقتصادی جوائنٹ ورکنگ گروپ کےقیام کا فیصلہ کیا گیا۔
چینی سفارتخانے نے اس بیان میں کہا ہے کہ چین سی پیک کے لئےپاکستانی عوام کی حمایت کو سراہتا ہے اور چین کو یقین ہے کہ سی پیک دونوں ممالک کے لئے یکساں طور پر ایک اہم منصوبہ ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان کی وفاقی وزارت منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات نے میڈیا میں جاری سی پیک کے حوالے سے پاکستان کے ذمہ واجب الادا 40 ارب ڈالر زقرض سے متعلق رپورٹ کو غلط معلومات پر مبنی اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔