اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے حال ہی میں اقوام متحدہ کے ۲۰۱۹ تا ۲۰۲۱ تک کے باقاعدہ بجٹ اور تحفظ امن بجٹ کےحصص کی تقسیم کے تناسب سےمتعلق ایک قرارداد منظور کی .قرارداد کے مطابق، اقوام متحدہ کے باقاعدہ بجٹ میں چین کا موجودہ حصہ تقریباً ۷ اعشاریہ۲۹فیصد سے بڑھ کر ۱۲ اعشاریہ صفر ایک فیصد تک ہو گا،جبکہ اقوام متحدہ کے تحفظ امن بجٹ میں چین کا حصہ ۱۵ اعشاریہ۲ فیصد تک ہوگا جس سے چین اقوام متحدہ کے دونوں بجٹوں میں دوسرا سب سے بڑا حصہ دار بن جائے گا ۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نےاس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی حیثیت سے حالیہ برسوں میں چین کی اقتصادی ترقی اور فی کس کل آمدنی میں اضافے کا نتیجہ ہےجس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کا بین الاقوامی اثر بڑھ رہا ہے ۔
گزشتہ دس سالوں میں، چین نے خلیج عدن اور صومالی سمندری علاقے میں حفاظتی بحری مشن کے لیے کل اکتیس حفاظتی بحری بیڑے بھیجے ، تحفظ امن کی تیس سرگرمیوں میں شرکت کی اور یوں اقوام متحدہ کے پانچ مستقل ارکان میں سلامتی افواج کی تعداد اور سرگرمیوں کے لحاظ سے چین پہلے نمبر پرہے ۔اسی لیے عالمی برادی چین کو ” تحفظ امن کے عمل میں کلیدی عنصر اور قوت” تسلیم کرتی ہے ۔
دو ہزار تیرہ میں چینی صدر مملکت شی جن پھنگ نے “دی بیلٹ اینڈ روڈ “انیشیٹو پیش کیا. گزشتہ پانچ سالوں میں، ایک سو سے زائد ممالک اور علاقوں نے فعال طور پر اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے اس میں شرکت کی اور ستر سے زائد ملکوں اور بین الاقوامی تنظیموں نے چین کے ساتھ “دی بیلٹ اینڈ روڈ ” تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں.
معروف امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق چینی سرمایہ کاری اور چین کے ترقیاتی منصوبے ، ترقی کےعالمی اشتراک کے لیے راستہ ہموار کر سکتے ہیں. رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا کے ایک سو اڑتیس ممالک میں چینی سرمایہ کاری کے چار ہزار تین سو منصوبوں کا جائزہ لینے کے بعد ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بنیادی طور پر چین کے امدادی منصوبوں کے باعث ان ممالک میں ترقی کا آغاز ہوا ہے .
تحفظ امن بجٹ کےحصص کی تقسیم کے تناسب سےمتعلق ایک قرارداد منظور کی .قرارداد کے مطابق، اقوام متحدہ کے باقاعدہ بجٹ میں چین کا موجودہ حصہ تقریباً ۷ اعشاریہ۲۹فیصد سے بڑھ کر ۱۲ اعشاریہ صفر ایک فیصد تک ہو گا،جبکہ اقوام متحدہ کے تحفظ امن بجٹ میں چین کا حصہ ۱۵ اعشاریہ۲ فیصد تک ہوگا جس سے چین اقوام متحدہ کے دونوں بجٹوں میں دوسرا سب سے بڑا حصہ دار بن جائے گا ۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نےاس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی حیثیت سے حالیہ برسوں میں چین کی اقتصادی ترقی اور فی کس کل آمدنی میں اضافے کا نتیجہ ہےجس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کا بین الاقوامی اثر بڑھ رہا ہے ۔
گزشتہ دس سالوں میں، چین نے خلیج عدن اور صومالی سمندری علاقے میں حفاظتی بحری مشن کے لیے کل اکتیس حفاظتی بحری بیڑے بھیجے ، تحفظ امن کی تیس سرگرمیوں میں شرکت کی اور یوں اقوام متحدہ کے پانچ مستقل ارکان میں سلامتی افواج کی تعداد اور سرگرمیوں کے لحاظ سے چین پہلے نمبر پرہے ۔اسی لیے عالمی برادی چین کو ” تحفظ امن کے عمل میں کلیدی عنصر اور قوت” تسلیم کرتی ہے ۔
دو ہزار تیرہ میں چینی صدر مملکت شی جن پھنگ نے “دی بیلٹ اینڈ روڈ “انیشیٹو پیش کیا. گزشتہ پانچ سالوں میں، ایک سو سے زائد ممالک اور علاقوں نے فعال طور پر اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے اس میں شرکت کی اور ستر سے زائد ملکوں اور بین الاقوامی تنظیموں نے چین کے ساتھ “دی بیلٹ اینڈ روڈ ” تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں.
معروف امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق چینی سرمایہ کاری اور چین کے ترقیاتی منصوبے ، ترقی کےعالمی اشتراک کے لیے راستہ ہموار کر سکتے ہیں. رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا کے ایک سو اڑتیس ممالک میں چینی سرمایہ کاری کے چار ہزار تین سو منصوبوں کا جائزہ لینے کے بعد ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بنیادی طور پر چین کے امدادی منصوبوں کے باعث ان ممالک میں ترقی کا آغاز ہوا ہے .