حال ہی میں امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے آرٹیکل 32 کے مطابق اگر معاہدے میں شامل کوئی بھی ملک اگر دوسرے غیرمنڈی معیشت کے حامل ملک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ طے کرے گا ، تو دوسرے ممالک چھ ماہ کے اندر سہ فریقی معاہدے سے نکل سکتے ہیں۔غالب گمان یہ ہےاس آرٹیکل کا مقصد چین کو نشانہ بناناہے۔
امریکی وزیر تجارت ولبر روز نے مذکورہ آرٹیکل کو “زہر کی گولی “قرار دیا ہے اور دوسرے ممالک کےساتھ تجارتی معاہدوں میں اسے شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔تو کیا امریکہ چین کو تنہا کرنے میں کامیاب ہوگا؟
سی آر آئی کی جانب سے جاری کردہ ایک تبصرے میں کہا گیا ہے کہ یہ معاہدہ ” امریکہ فرسٹ”کے اصول کے مطابق ایک غیرمنصفانہ معاہدہ ہے۔واشنگٹن نے اپنے تجارتی طاقتور ملک ہونے کی حیثیت سے کینیڈا اور میکسکو کی آزادی اور خودمختاری کو چھین لیا ہے۔تاہم ایک زہر کی گولی اتنی آسانی سے لی نہیں جا سکتی ۔
حال ہی میں کینیڈا کے وزیر خارجہ نے چینی وزیر خارجہ وانگ ای کو کہا کہ کینیڈا دوسرے ممالک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کے مذاکرات کو فروغ دینے کا فیصلہ خود کرے گا اور چین سمیت دیگر ممالک کے ساتھ کثیرالطرفہ تجارتی نظام کو جاری رکھنے کا خواہاں ہے۔
دوسری طرف جاپان اور یورپی یونین سمیت امریکہ کے تجارتی شراکت دار بھی اتنی آسانی سے امریکہ کی یہ زہریلی گولی قبول نہیں کر سکتے ہیں۔یورپی کمیشن کے چیئرمین نے کہا تھا کہ امریکہ جیسے دوست کے ہوتے ہوئے کسی دشمن کی ضرورت ہی نہیں۔
تیسرا یہ ہے کہ چین میں کھپت کی منڈی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اندازے کے مطابق رواں سال چین کے امریکہ سے تجاوز کر کے سر فہرست ملک بننے کی توقع بھی کی جارہی ہے۔بیک وقت چین دنیا کے ایک سو بیس سےزیادہ ممالک یا علاقوں کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہے گا۔تو دنیا میں کوئی بھی معیشت چین کے ساتھ تجارت کے مواقع کو آسانی سے چھوڑ نہیں سکتی۔