لیانگ جیا حہ نامی ایک غیر افسانوی ادبی تصنیف کے اردو میں صوتی ترجمے کا چوتھا حصہ

0

۲۲ دسمبر انیس سو اڑسٹھ  کو چیئرمین ماوَ زے تنگ نے اعلان کیا کہ ، ” تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ  وہ دیہی علاقوں کی طرف جائیں اور وہاں کےغریب کسانوں سے از سر نو تعلیم حاصل کریں ۔ ”

شہری آبادی کے دسویں حصے نے اس پکار پر  اپنا جوابی ردعمل دیا اور سترہ ملین نوجواں طلبہ ، چین کے دیہی علاقوں کی طرف آنے کے لیے شہروں سے روانہ ہوےَ، یہ  آغاز تھا اس سفر کا جو ان کے لیے

ناقابل فراموش بننے والا تھا۔

شی جن پھنگ ان نوجوان طلبہ میں سے ایک تھے جنہوں نے یہ سفر کیا تھا ۔ انہوں نے بیجنگ سے

ایک ایسے مقام کے لیے اپنے سفر کا آغاز  کیا کہ جو اب ان کے لیے ا ن کا دوسرا گھر بننے جا رہا تھا۔

بیجنگ چھوڑنا شی جن پھنگ کے لیے تو  جیسے ایک راہ فرار ثابت ہوا۔

ان کے والد  شی چونگ شن کو  انیس سو باسٹھ میں پارٹی قیادت سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں شی جن پھنگ کو  بچپن ہی سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ۔ تہذیبی اور ثقافتی انقلاب کے دوران معاملات اور بھی خراب ہوگئے ۔ ان کے خاندان کو اپنے تمام اثاثہ جات سے ہاتھ دھونے پڑے ۔ بعد میں  شی جن پھنگ نے اس کے بارے میں لکھا ، ” مجھے ایک نام نہاد رجعت پسند باپ کی گستاخ اولاد کے طور پر پہچانا جاتا تھا” ۔ میں اس وقت بمشکل ۱۵ سال کا تھا ۔ مجھے کہا جاتا تھا کہ میں سو مرتبہ موت کی سزا کا حقدار ہوں۔” شی جن پھنگ کو پہلے پولیس اسٹیشن اور پھر کم عمر بچوں کی جیل میں بھی لے جایا گیا  جس میں اس قدر بھیڑ تھی کہ شی جن پھنگ کو اس میں جانے کے لیے ایک ماہ انتظار کرنا پڑا۔ اسی لیے شی جی پھنگ نے رضا کارانہ طور پر دیہی علاقے کی طرف جانا ہی پسند کیا۔ اس وقت کو ذہن میں دہراتے ہوےَ وہ کہتے ہیں کہ ، ” انہوں نے دیکھا کہ میں یان آن جا رہا ہوں ، جو کہ ایک طرح کی جلا وطنی ہی تھی ، سو انہوں نے مجھے جانے دیا ۔ ” انہوں نے یان آن جانا اس لیے چنا کیونکہ ان کے والد  نے انقلابی کاموں کے دوران اپنا وقت وہاں گزارا تھا ۔

تیرہ جنوری ، انیس سو انہتر  ، بیجنگ کا ریلوے اسٹیشن لوگوں کے ہجوم سے اٹاہوا تھا ، فضا میں ایک سوگواری  تھی ، شی جن پحنگ بمشکل سولہ سال کے تھے کہ جب وہ یان آن کے لیے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایکسپریس   میں سوار ہوےَ، ٹرین روانہ ہونے لگی تو ٹرین پر سوار اور ٹرین سے باہر موجود لوگوں کے آنسو رواں ہو گےَ۔

شی جن پھنگ نے بعد میں اس کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا  کہ ۔ “میں واحد تھا کہ جو اس

وقت مسکرا رہا تھا ۔ میرے مسکرانے پر ٹرین کے باہر موجود میرے بہت سے رشتے داروں نے کہا کہ کیوں ؟   

میں نے کہا ، اگر مجھے یہاں رکنا پڑتا پھر تو میں ضرور روتا ، مجھے نہیں معلوم کہ اگر میں ایسا کروں تو کیا میں بچ

سکوں گا ، اس لیے کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ میں جا رہا ہوں ؟ ”

تعلیم یافتہ نوجوانوں کی یہ ایکسپریس  تونگ چوان کے شہر پہنچ گئی اس دور میں ریل گاڑی یان آن تک نہیں  جاتی تھی ۔ اب انہیں آگے ٹرک کے ذریعے سفر کرنا تھا ، ٹرک پر سوار ہونے سے پہلے انہوں نے ناشتہ کیا ۔ اب ٹرک کا سفر اس زمینی راستے پر شروع ہونا تھا کہ جو سردیوں کی وجہ سے  خنک اور اجاڑ منظر پیش کر رہا تھا۔ جب وہ یان آن پہنچے تو اندھیرا چھا چکا تھا ، تمام لوگ دھول مٹی میں اٹے ہوئے تھے ۔ ٹرک یان آن نارمل اسکول میں آکر رکا ، یہ ان کی عارضی قیام گاہ تھی ۔  تجسس کے مارے چند لوگ چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں ٹرک میں سے اتر کر چہل قدمی کرنے لگے ۔ یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا اور پیدل چلتے ہوےَ محض آدھے گھنٹے میں انہوں ے تمام شہر دیکھ لیا۔ اس شہر کی سب سے بلند عمارت شن ہووا  کی دو منزلہ کتب کی دکان تھی۔ اس یخ بستہ ہوا میں ماسواےَ ایک جھولتے لیمپ کے ، جو اندرون شہر جانے والی بسوں کے اڈے کے باہر لگا تھا ، باقی تمام شہر پر گہرے اندھیرے کی چادر تنی تھی ۔

”     کیا یہ ، واقعی  انقلاب کا گہوارہ تھا ؟ ؟”

 بیجنگ سے اس سفر پر روانہ ہوتے ہوےَ ان کے اس سفر سے متعلق جتنے تصورات تھے سب یکدم

بکھر گےَ ۔ مایوسی ان سب کے چہروں پر لکھی ہوئی تھی ۔

پندرہ جنوری کو  انہوں نے ایک مرتبہ پھر سے دھول اڑاتے پر پیچ راستے پر سفر کا آغاز کیا۔  ٹرکوں کا یہ قافلہ مختصر سے مختصر ہوتا جا رہا تھا ، حتی کہ جب محض چند ٹرک رہ گےَ تو  چند نوجوانوں نے اونچی آواز میں کہا کہ کہیں ہم کسی غلط راستے پر تو نہیں جا رہے ؟

شی جن پھنگ اس تمام راستے میں زیادہ نہیں بولے ۔ انہیں کچھ اندازہ نہیں تھا کہ جہاں وہ جا رہے ہیں  ، وہ مقام کیسا ہو گا اور وہاں ا نہیں کیسے حالات ملیں گے ۔

اگلے دن شی جن پھنگ اور ان کے ساتھی ضلع    یان چھو آن کی ایک تحصیل میں پہنچے ۔یہاں پر  سب کو چیرَمین ماوَ کے منتخب اقوال کی ایک ایک کتاب  اور ایک سفید تولیہ ملا ۔ اس کے بعد یہ سب اپنی کام کرنے والی ٹیموں میں بٹ گئے ۔

ان کے پیچھے پیچھے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے مزید دستے بھی  یہاں پہنچ گئے ۔ انیس سو انہتر سے انیس سو چھہتر تک ، بیجنگ سے  دو لاکھ اسی ہزار نوجوانوں پر مشتمل چار گروہ یان آن پہنچے تھے ۔  شی جن پھنگ کو دیگر چودہ نوجوانوں کے ساتھ لیانگ جیا حہ گاوَں کو سونپ دیا گیا ۔ شی جن پھنگ  ان سب میں سے کم عمر تھے ۔

لیانگ یو منگ ، جو بعد میں لیانگ جیا حہ کی مقامی سی پی سی  کمیٹی کے سیکریٹری بنے ، یاد کرتےہیں کہ شی جن پھنک کے ساتھ  بھورے رنگ کا کتابوں سے بھرا سوٹ کیس تھا ۔ انہوں نے سوچا کہ بیجنگ کا یہ نوجوان کیا اپنے ساتھ  سونے کی اینٹیں لے کر آیا ہے ؟

لیانگ کہتے ہیں کہ ایک دن وہ گاوَں میں ان تعلیم  یافتہ نوجوانوں کی ان کا سامان اٹھانے میں مدد کر رہے تھے تو  ایک چالاک نوجوان نے اٹھانے کے لیے اس بھورے سوٹ کیس کو منتخب کیا جو کہ دیکھنے میں سب سے چھوٹا لگ رہا تھا لیکن جب سب چل رہے تھے تو وہ ان کی رفتار کا ساتھ نہ دے سکا ۔ جب وہ سب آرام کرنے کے لیے رکے تب اس نے ان قدرے بڑے سوٹ کیسز کو اٹھایا جو دوسرے اٹھا کر چل رہے تھے  اور اسے اندازہ ہوا کہ یہ بڑے سوٹ کیس اس چھوٹے نظر آنے والے سوٹ کیس سے زیادہ ہلکے تھے ، تب اس نے سوچا کہ بیجنگ کا یہ نوجوان اپنے ساتھ سونے کی اینٹیں تو نہیں لایا کیا ؟ یہ تو جب وہ سارے لیانگ جا حہ پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ نوجوان شی جن پھنگ کا یہ چھوٹا بھورا سوٹ کیس اور وہ بڑا سوٹ کیس کہ جو اس نے تھام رکھا تھا ، کتابوں  سے کھچا کحچ بھرے ہوئے تھے ۔

 انیس سو انہتر میں جلد ہی چین کے نئے سال کا آغاز ہوا تو یان آن میں  ان نوجوانوں کو پہلی مرتبہ سٹیم باوَل نامی ڈش کھانے کا موقع ملا ۔یہ خاص مقامی   ڈش خصوصی مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے یہاں پر پیش کی جاتی تھی ۔ ہلکی آنچ پر پکایا گیا بڑا گوشت ، تلی ہوئی مرغی ، قیمے کے  کوفتے ، اور چانپیں چار چھوٹے پیالوں میں چاول کے مشروب کے ساتھ میز پر پیش کی جاتی تھیں ۔ یہ ایسے وقت میں کہ جب کھانے کے لیے خوراک وافر نہیں ہوتی تھی  یہ ایک ضیافت کھانے کے مترادف تھا۔ نوجوان تو اس کھانے کے گرویدہ ہو گئے بھلا ان میں سے کس نے سوچا ہو گا کہ اس جگہ پر بھی اس قدر خوش ذائقہ خوراک ملے گی ۔

مگر یہ  بات اس وقت سے پہلے کی ہے کہ جب لیانگ جا حہ نے اپنے اصل رنگ ظاہر  کرنےشروع کیے تھے ۔

نئے قمری سال کے آغاز کے بعد بہت سے لوگوں نے اپنے گھروں کو تالے لگائے اور چلے گئے۔ یہ سال کا وہ وقت تھا کہ جب گاوَں والے اپنے گھروں کو چھوڑ کرخوراک مانگنے کے لیے نکل جاتے تھے ۔ ضلع یان چوان میں آدھے سے زیادہ گاوَں والے  بھیک مانگنے باہر چلے جاتے تھے ، حتی کہ کام کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے کئی رہنما بھی اس میں شامل ہوتے تھے ۔ نئے آنے والوں کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ گاوَں والوں کو زندہ رہنے کے لیے ضروریات زندگی کو اس طرح جمع کرنا پڑتا ہو گا ۔  

کسان بھی جس قدر سخت جان فشانی  کے ساتھ کام کرتے تھے اس نے شی جن پھنگ کو تو جیسے جھنجھوڑ کر  رکھ دیا ۔ وہ صبح چھ بجے جاگتے تھے تاکہ پہاڑوں پر جا کر کام کر سکیں ۔ جب وہ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچتے تھے تو وہ بے دم ہو چکے ہوتے تھے مگر   وہ پھر بھی دوپہر کے کھانے تک بغیر رکے کام کرتے رہتے تھے ۔ شی جن پھنگ نے یہاں سگریٹ پینا سیکھا کیونکہ اس دوران انہیں آرام کرنے کا تھوڑا سا  وقت مل جاتا تھا۔

گاوَں کی زندگی اور وہ زندگی کہ جو وہ یہاں آنے سے پہلے گزار رہے تھے اس میں ایک بہت  واضح فرق تھا ۔ یہاں گزارے گےگئے پہلے ایک سال نے شی جن پھنگ کی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالا ۔ بعد میں اس بارے میں ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ایک جگہ یہ کہا کہ جب میں پہلی مرتبہ یہاں آیا تو مجھے لگتا تھا کہ میرا تو یہاں سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔

یہاں پر شی جن پھنگ کو سب سے زیادہ جس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہ یہ تھی کہ وہ کتوں کو روٹی کھلاتے تھے۔ یہ روٹی وہ بیجنگ سے چلتے ہوئے اپنے ہمراہ لائے تھے  اور اب یہاں آنے تک وہ خراب ہو چکی تھی اس لیے انہوں وہ کتوں کے کھانے کے لیے ان کے سامنے پھینک دی۔

گاوَں والے اس قدر قیمتی چیز ، کتوں کو دینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔

یہ بات ایک سے دوسرے تک پہنچی اور ہوتے ہوتے پوری  یان چو آن تحصیل میں اس انداز میں پھیل گئی کہ شہر سے آئَے ہوےَ نوجوان خوراک ضائع کرتے ہیں ۔

شی جن پھنگ اس وقت کو یاد کرتے ہوےَ کہتے ہیں کہ ، ” میں پندرہ سال کا تھا  اور بے اعتباری سے بھرے اس نامانوس ماحول میں خود کو بے حد تنہا محسوس کرتا تھا ۔ ”

ان کی گھریلو زندگی تو بالکل تباہ ہو کر رہ گیَ ۔ ان کے والد کو گرفتار کر لیا گیا  ان کی والدہ کو ان کے عہدے سے تنزلی دے دی گئی اور ان کی بہن کو اندرونی منگولیا میں بھیج دیا گیا ۔ شی جن پھنگ اس وقت ہیملٹ کے   جیو یا پھر مر جاوَ کے وہم جیسی جدو جہد کر رہے تھے ۔

کچھ ہی ماہ میں شی جن پھنگ نے اپنے خاندان والوں سے ملنے کے لیے بیجنگ جانے کے لیے کہا۔  وہاں کی مقامی پولیس کو غلط فہمی ہوئی کہ شاید یہ ان میں سے ہے کہ جو یہاں سے نکل کر واپس شہر جا کررہنا  چاہتے ہیں انہوں نے شی جن پھنگ کو دھمکانے کے لیے انہیں گرفتار کر لیا۔ شی جن پھنگ کو وہاں پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا  اور ان سے جبری طور پر سخت جسمانی مشقت کروائی گئی۔ شی جن پھنگ بتاتے ہیں کہ ، ہم نے بیجنگ کی ہائی ڈیان ڈسٹرکت میں زیر زمین نکاسی کے پائپ  بچھانے کا تمام کام کیا۔

لیانگ جیا حہ کے لوگ اب ان کو دوبارہ دیکھیں یہ سب اس سے پانچ ماہ پہلے کی بات تھی ان کا گندمی  چہرہ کالک اور دھوئیں کی وجہ سے تپ کر مزید سیاہ ہوگیا تھا ۔

لینگ جیا حہ میں گزارے  گئے وقت کو اپنی یادداشت میں دہراتے ہوئے شی جن پھنگ کہتے ہیں کہ  ، ” میں نوجوان تھا اور میرے پاس گاوں جانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا۔  مستقبل کے باری میں میرا کوئی منصوبہ نہ تھا، میں نے اتفاق و بھائی چارہ کی اہمیت کو نظر انداز کیا تھا اور  میں تمام وقت بلا مقصد ادھر اادھر پھرتا رہتا تھا ۔ میرے اس رویے نے گاوَں والوں پر میرا بہت ہی برا تاثر چھوڑا تھا ۔”

  بیجنگ کا لڑکا، دیہی  لڑکا

شی جن پھنگ نے  بیجنگ کے لڑکے اور دیہی  لڑکے کے درمیان پائے جانے والے  سماجی اور تہذیبی فرق کو کم کرنے کے لیے سخت محنت سے کام کرنا شروع کیا  اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ان کی نئی شخصیت نے جنم لیا ہو۔

کچھ عرصے کے لئے  لیانگ جیا حہ میں پائے جانے والے  پسو ان کے لیے سب سے زیادہ ناقابل برداشت اور بے حد تکلیف  دہ تھے ان کی جلد حساس تھی اور پسوؤں کے کاٹنے سے ان کی پنڈلیوں پر جا بجا   سوجن ہوئی اور داغ پڑ گئے۔ انہیں دو سال لگے مگر بالآخر وہ اس کے عادی ہوگئے۔اب تو پسو  چاہے جتنی بھی زور سے کاٹتے وہ بے جان تختے کی طرح آرام سے سوتے رہتے ۔

یہاں پر   موجود بیت الخلا  ایک اور ایسی چیز تھے کہ جن کے استعمال کا عادی بننا بھی مشکل تھا  ۔ دیہی علاقوں میں بیت الخلا کی حالت اچھی نہیں تھی ۔ دیہات میں موجود بیت الخلاء گندے  شدید بد بو دار ہوتے تھے ۔ سردیوں میں وہ شدید ٹھنڈے اور گرمیوں میں گرم ہوتے تھے۔

شی جن پھنگ کے مطابق   ” ہر فرد نے جلد ہی حوائج ضررویہ  سے بر وقت فارغ ہونا سیکھ لیا تھا”

دیہی علاقوں میں   غسل کے لیے پانی کے نلکے یا فوارے موجود نہیں تھے۔

سرد موسم میں لوگ پانی کو ابال کر اس میں تولیہ بھگوتے  اور جسم کو دھونے کے لیے اس گیلے تولیے کا استعمال کرتے  جب کہ گرم موسم میں نہانےکے لیے دریا کا رخ کرتے۔

دیگر  تعلیم یافتہ نوجوان  ، شی جن پھنگ کو شرمیلا فرد کہتے تھے جبکہ وہ  مضبوط ذہن کے مالک تھے اور انہوں نے کبھی کسی قسم کی شکایت نہیں  کی ۔

دیہاتیوں کے  نزدیک وہ ایک   صاحبِ علم، ملنسار، اور عاجز  آدمی تھے۔دیہاتیوں کے نزدیک اپنی بات چیت میں نہ وہ  انتہا پسند اور نہ ہی قدامت پسند تھے۔ان کے مزاج میں وہ  شہری پن نہیں تھا جو کہ انہیں دیہاتیوں سے دور کر دیتا۔

شی جن پھنگ نے اپنے جوتے اپن ان  دوستوں کو دے دیے جو کہ بہت خوش حال نہ تھے۔  بعض اوقات شی جن پھنگ زلف تراش بن جاتے اور وہ  نوجوان دیہاتیوں کے با ل کاٹتے۔

بعض اوقات  وہ ان کے تیراکی  کے استاد بن جاتے اور جو لوگ صرف ا بتدائی سطح کی تیراکی جانتے تھے  انہیں تیراکی کی مزید مہارتیں سکھاتے۔

لیانگ جیا  حہ میں بہت سے نوجوان شی جن پھنگ کے دوست بن گئے ا گرچہ وہ تمام  لوگ جانتے تھے کہ ان کے والد نام نہاد ” سیاسی غلطیوں” کے مرتکب ٹھہرے ہیں اور شی جن پھنگ کو  “رجعت پسند “گھرانے کا فرد سمجھا جاتا ہے۔

لیانگ جیا  حہ میں شی جن پھنگ کے  بیجنگ کے ایک تعلیم یافتہ ساتھی  کے مطابق شی جن پھنگ ہرکسی کی تعریف اور نفرت  کیے بغیر تمام لوگوں کے ساتھ ہمیشہ یکساں انداز میں پیش آتے  ۔ وہ ہمیشہ مسکراتے رہتے اور نرم لہجے میں بات کیا کرتے۔

دیہاتی بیجنگ کے اس لڑکے کو پسند کرتے تھے اور یہی   لڑکا ان کے لیے گاؤ ں سے باہر کی دنیا کے متعلق معلومات کا ذریعہ تھا۔

 

SHARE

LEAVE A REPLY