آج لیانگ جیاحہ کے ایک چھوٹے سے میوزیم میں دیوا پر ایک تصویر لٹک رہی ہے ۔اس تصویر میں ان لمحات کو قید کیا گیا ہے کہ جب گاوَں والوں نے شی جن پھنگ کے جامعہ سنگوا میں پڑھنے جانے سے پہلے ان کے لیے ایک الوداعی پارٹی منعقد کی تھی۔
جب شی جن پھنگ اپنے گاوَں والوں کے بیچ ہوتے تھے تو ان کا برتاوَ بالکل بھی کسی سرکاری عہدے دار کی طرح کانہیں ہوتا تھا ۔ گاوَں والوں کے لیے تو وہ پارٹی جنرل سیکریٹری ،آج بھی ویساہی جان توڑ محنت کرنے والا ، عملی اور کتابوں سے محبت کرنے والانوجوان تھا کہ جسے وہ کئی دہائیوں سے جانتے تھے۔
۲۰۰۹ کے اوآخر میں جب شی جن پھنگ یان آن کے تجزیاتی دورے پر تھے تو ان کو ایک مقامی دیہاتی وانگ شیان پھنگ سے ملنے کا موقع ملا ۔ وانگ ویسے تو بے حد باتونی آدمی تھا ، مگر شی جن پھنگ سے ہاتھ ملاتے ہوئے وہ کچھ الجھ سا گیا ۔ اسےکچھ سمجھ نہ آئی کہ آخر وہ اپنے پرانے دوست شی جن پھنگ کو کیا کہہ کر مخاطب کرے ، کیا وہ انہیں مسٹر وائس پریذیڈنٹ کہہ کر مخاطب کرے یا ابھی بھی انہیں اسی پرانے انداز میں جن پھنگ کہنا ٹھیک رہے گا ؟ ۔شی جن پھنگ نے اس مشکل کو یوں دور کیا کہ اس سے پہلے خود اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا ، ” شیان پھنگ ، جب ہم آخری مرتبہ ملے تھے تب کی نسبت تمہارا وزن کافی بڑھ گیا ہے ۔ ”
ان دونوں کو وہ وقت یاد تھا کہ جب شی جن پھنگ لیانگ جیا حہ میں رہتے تھے اور وہ دونوں کبھی کبھارکشتی کی مشق کیا کرتے تھے ۔ ” وانگ نے کہا، ” وہ کیا سچی خوشیاں ہوتی تھیں ، ہم دونوں جوان تھے۔ جانتے ہو کیا ، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم اتنے اعلی سرکاری عہدے دار بن جاوَگے تو میں تم سے کشتی کرنے کی جرات بھی نہ کرتا ۔ ” اس بات پر شی جن پھنگ نے بے ساختہ ایک زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ، ” ارے ، تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو ؟ ” اور پھر جب گاوں کے پارٹی سیکریٹری کے طور پر ، شی جن پھنگ کے قائم مقام شی چن یانگ نے اس تجزیاتی دورے کے دوران اپنی رپورٹ کا آغاز کرتے ہوئے جن پھنگ کو ” یور آنر ، وائس پریذیڈنٹ مسٹر شی جن پھنگ ” کہہ کر مخاطب کیا تو شی جن پھنگ نے انہیں فوراً روک دیا اور کہا ” ارے نہ کر و ، کیا اب تم بھی مجھے اس خطاب سے پکارو گے؟۔ ”
انیس سو انہتر میں ، جب شی جن پھنگ کو لیانگ جیا حہ میں سکونت پذیر ہوئے کچھ ہی ماہ گزرے تھےایک مقامی دیہاتی ، چانگ وی پھانگ کی شادی ہوئی ۔ اس وقت روزمرہ زندگی کے معمولات کی تکمیل کے حوالے سے چانگ کے مالی حالات کچھ اچھے نہ تھے لہذا شی جن پھنگ نے یہ ذمہ داری اپنے سر لی اور اپنی اشیائے خورد و نوش کو اس خاندان کے ساتھ بانٹتے ہوئے روزانہ رات کا کھانا ان کے ساتھ کھانے لگے ۔ وہ وقت اب بھی چانگ کو موہوم سے انداز میں یاد تھا ۔ ” میری بیوی جو بھی پکاتی وہ اس پر مطمن ہوتے ، انہوں نے کبھی بھی غریب کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھا ۔ “
کئی سالوں بعد جب شی جن پھنگ کالج جانے کے لیے بیجنگ کی طرف عازم سفر ہونے لگے تو انہوں نے چانگ وی پھنگ کو دو رضائیاں، دو کوٹ اور ایک سلائی کے سامان کی تھیلی تحفے کے طور پر دی ۔ سلائی کے ساما ن کی اس تھیلی پر کشیدہ کاری سے ما ں کی جان کے الفاظ کاڑھے گئےتھے اور اس سے شی جن پھنگ کی جذباتی وابستگی تھی کیونکہ یہ شی جن پھنگ کی والدہ نے انہیں اس وقت دی تھی کہ جب وہ سالوں پہلے اپنے گھر سے گاوَں میں رہنے کے لیے آئےتھے ۔
انیس سو ترانوے میں جب شی جن پھنگ ، لیانگ جیا حہ واپس آئے تو اس وقت چانگ وی پھانگ دور پہاڑوں پر کھیتی باڑی کا کام ر ہا تھا ۔ شی جن پھنگ کے آنے کا علم ہوا تو تیزی سے نیچے کی طرف بھاگا اور آدھے راستے ہی میں اس کی شی جن پھنگ سے ملاقات ہو گئی ۔ اس ملاقات کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ ” جن پھنگ نے اس بات کی بالکل بھی پرواہ نہ کی کہ میرا لباس مٹی سے اٹا ہوا ہے ، انہوں نے آگے بڑھ کر مجھے تھاما اور باتیں شروع کر دیں ۔ میں بے حد پر جوش ہو رہا تھا اور فرط جذبات میں سمجھ ہی نہ پا رہا تھا کہ میں کیا کہوں ۔ ”
اس وقت کو یاد کرتے ہوئے شی جن پھنگ کہتے ہیں کہ ” گاوَں والوں نے مجھے سکھایا کہ زندگی کیسے جیتے ہیں ، کھیتوں میں کام کیسے کیا جاتا ہے ۔ میں ایک لاعلم نوجوان تھا ، مگر ان سے میں نے سب کچھ سیکھا ، نوڈلز کیسے بناتے ہیں ، بھاپ میں بن کیسے بناتے ہیں، اور اچار ، ہاں میں سب سے زیادہ اس اچار کو یاد کرتا ہوں ۔ ”
جب دو ہزار پندرہ میں شی جن پھنگ گاوَں آئے تو رات کے کھانے میں میز پر ان کے اور ان کے دوستوں سامنے اچار موجود تھے ۔ ان کے ایک دوست نے بتایا کہ ” انہوں نے بہت سا اچار اور کدو کھایا تھا ۔”
یہ مقامی اچار شی جن پھنگ کو ہمیشہ بہت پسند رہے ہیں ۔ پچھلے سال انہوں نے ایک نامہ نگار کو بتایا ، ” شروع شروع میں کھانے کی اس قسم کی اشیا مجھے بالکل نہیں بھاتی تھیں۔ اس وقت آپ چھان یا اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہو کھا تےتھے یا پھر بھوکے رہتے تھے ۔ گاوَں والوں نے میرے ساتھ اپنی کھانے پینے کی اشیا بانٹنی شروع کیں مثلا مکئی کی روٹی اور جوارکے بن ۔ یہ سب بھی بہت لذیذ تھے مگر ان سب میں سے زیادہ ذائقے دار وہ اچار تھے جو کہ مجھے ہمیشہ بہت یاد آتے ہیں ۔”
مارچ دو ہزارچودہ میں ، جب شی جن پھنگ ، نیشنل پیپلز کانگریس کے صوبہ گوئی چو کے وفود کے ساتھ ، حکومت کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹ کا جائزہ لے رہے تھے ، انہوں نے اس بارے میں بھی بات کی کہ دیہی علاقے کی ان کی زندگی میں اتنی اہمیت کیوں ہے ۔ ” مجھے ہمیشہ سے گاوَں سے بہت محبت رہی ہے۔ جب میں انیس سو انہتر میں وہاں گیا تو گاوَں والوں نے میری بہت مدد کی ۔ انہوں نے ہر وہ چیز میرے ساتھ بانٹی جو کہ وہ خود کھاتے تھے ۔ اس وقت ، اچار سے بھرا ایک پیالہ ایک زبردست کھانا ہوتا تھا۔ مجھے آج بھی پسماندہ دیہی علاقوں کے لوگوں کا بے حد احساس ہے ۔ سی پی سی کے ایک رکن کے طور پر ہمیں انہیں اپنے ساتھ اپنے دلوں میں رکھتے ہوئے ان کے لیے کام کرنا ہے ، نہیں تو ہم اپنے ضمیر کا سامنا نہیں کر سکیں گے ۔”
انیس سو چورانوے میں ، لیو ہو شنگ کہ جن کے ساتھ شی جن پھنگ گاوَں میں رہتے رہے تھے ، ہڈیوں کی سوزش کی بیماری کا شکار ہوگئے ۔ لیو نے دو ماہ کے دوران اس بیماری کے علاج پر چھے ہزار یو آن خرچ کر دیئے مگر افاقہ نہ ہوا۔ انہوں نے اس بارے میں شی جن پھنگ کو ایک خط تحریر کیا اور دو ہفتوں کے بعد شی جن پھنگ نی انہیں پانچ سو یو آن بھیجنے کے ساتھ ساتھ لیو کے لیے فو چو جا کر ڈاکٹر سے علاج کروانے کے انتظامات بھی کیے ۔ جب تک وہ فو چو میں رہے شی جن پھنگ تقریبا ہر رات لیو سے ملاقات کے لیے آتے ۔ انہوں نے کہا ، ” ہو شنگ ، جب تک تم بہتر نہیں ہو جاتے مجھے اس بات کی فکر نہیں ہے کہ میں کتنا خرچ کر رہا ہوں ۔ ”
جب لیو کی حالت کچھ بہتر ہوئی اوروہ گھر جانے کے لیے تیار ہوئے تو شی جن پھنگ نے ان کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدا اور ساتھ ہی انہیں دو ہزار یو آن بھی دیئے۔
ہوشنگ نے انہیں کہا ” جن پھنگ میری بیماری نے تمہارا کئی ہزار کا خرچہ کروا دیا اس کے لیے میں بے حد معذرت خواہ ہوں ۔” مگر شی جن پھنگ نے اپنے دوست کو یاد دلایا کہ ” ہم دونوں دوست ہیں ، ٹھیک ہے نا ؟ ”
کچھ سالوں کے بعد شی جن پھنگ کو علم ہوا کہ لیو کو آپریشن کی ضرورت ہے ۔ ان کی متاثرہ ٹا نگ کو کاٹنے کی ضرورت ہے ۔ شی جن پھنگ نے اپنے اس پرانے دوست کے آپریشن کے لیے جتنی رقم درکار تھی وہ ادا کی اور گاوَں میں بھی اپنے دوستوں کو کہا کہ لیو کا خیال رکھیں۔ اس حوالے سے ہو شنگ نے آنسووَں سے بھری آنکھوں کے ساتھ کہا۔ ” جن پھنگ کا میرے ساتھ برتاوَ بہت ہی اچھا رہا ۔ اس نے میری بیماری میں میرا بہت خیال رکھا۔”
کسی بھی بیماری کی صورت میں لیو اور دیگر گاوَں والوں کے لیے فنڈز دینے کے ساتھ ساتھ شی جن پھنگ لیانگ جیا حہ والوں کی کئی سالوں تک دیگر طریقوں سے بھی مدد کرتے رہے، جیسا کہ ، ان کے لیے بجلی کا بندوبست اور فراہمی ، اسکولز کی مرمت اور پل کی تعمیر ۔
وو حوئی کا کہناہے کہ ” جب بھی ہم میں سے کسی کو بھی مدد کی ضرورت ہوتی تھی وہ ہمارے لیے موجود ہوتے تھے ۔ وہ ہر خط کا جواب دیتے تھے ۔ ”
جب دو ہزار پندرہ میں وو حوئی فو جیان گئے تو شی جن پھنگ نے انہیں اپنے گھر رات کے کھانے کی دعوت دی جہاں سب کچھ ان کی اہلیہ پھنگ لی یو آن نے گھر پر پکایا تھا وو حوئی اس بارے میں کہتے ہیں کہ ” وہ بے حد خیال کرنے والی خاتون تھیں اور انہوں نے پوری کوشش کی تھی کہ ہمارے مقامی انداز میں کھانا پکائیں ۔ ”
دو ہزار پندرہ میں امریکہ کے دورے کے دوران اس کے شہر سیئٹل میں شی جن پھنگ نے اپنے امریکی میزبانوں کو بتایا کہ وہاں لیانگ جیا حہ میں ان کی زندگی کیسی تھی ۔
‘ میں اور گاوَں والے غاروں میں رہتے اور مٹی کی بنی اینٹوں کے بستروں پر سوتے تھے، گوشت کا ذائقہ کیسا ہوتا ہو گا اس کا ہمیں کچھ صحیح سے اندازہ نہیں تھا ۔ تب مجھے صحیح معنوں میں اندازہ ہوا کہ درحقیقت ان لوگوں کو کن چیزوں کی ضرورت ہے ۔ اس وقت میں گاوَں کا پارٹی سیکریٹری تھا اور میں نے ان کے آبائی علاقے کی حالت بہتر کرنے میں ان کی مدد کی ۔
میں نے بس ایک مقصد کو ذہن میں رکھا اور سخت محنت کی اور وہ مقصد تھا کہ”گاوَں والوں کو چاہے ایک مرتبہ ہی سہی گوشت کا ایک عمدہ کھانا مل سکے ۔ اس وقت یہ ایک ناممکن خواب کی طرح تھا مگر اس گزشتہ بہار کے تہوار پر میں وہاں واپس گیا تھا ۔ گاوَں میں سڑکیں بن گئی تھیں ، گھر پختہ اینٹوں کے تھے ۔ گاوَں والے انٹر نیٹ کا استعمال کر رہے تھے ، معمر افراد کو بنیادی پنشن مل رہی تھی ہر ایک کے پاس طبی بیمہ تھا ۔ ان کے بچوں کو بہترین تعلیم تک رسائی حاصل تھی ۔ اور ہاں گوشت کھانا تو پھر ان کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا تھا ۔ “
اس چھوٹے سے گاوَں میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب سے اصلاحات کا دورشروع ہوا ہے چین کس طرح سے کھلا ہے اور اس نے کس طرح سے ترقی کی ہے ۔ہمیں دنیا کی دوسری بڑی معیشت بننے میں تیس سال لگے ہیں ۔ اب ہمارے ایک اعشاریہ تین بلین لوگوں کے لیے کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے۔ وہ ایک معتدل خوشحالی کے ساتھ ، اپنی قدر و منزلت اور حقوق کا بھر پور لطف اٹھا رہے ہیں ، وہ حقوق کہ جو پہلے انہیں حاصل نہیں تھے ۔زندگی کی یہ تبدیلی ناصرف چینی عوام کے لیے ہے بلکہ یہ انسانی تمدن کی اہم پیش رفت کی علامت ہے اور ساتھ ہی یہ دنیا کی ترقی اور امن میں چین کی اہم خدمات میں سے ہے ۔