لیانگ جیا حہ  نامی ایک غیر افسانوی ادبی تصنیف کا اردو میں صوتی ترجمے کا دوسرا حصہ

0

۱۹۹۳  ، انیس سو ترانوے میں  جب شی جن پھنگ لیانگ جیا حہ کے دورے پر آئے تھے تو چیانگ چنگ یوآن نے اظہار مذاق ان سے کہا ،  ” یہ کیسے ہو گیا کہ تم اپنی بیوی کے بغیر یہاں آگئے ؟” اور اب جب ۲۰۱۵ میں شی جن پھنگ اپنی بیوی کو لے کر لیانگ جیا حہ آئے  تو چیانگ چنگ یوآن کا انتقال ہو چکا تھا ۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر آپ بے حد افسردہ ہوئے اور پوچھا ” ان کو کیا ہوا تھا؟ ” لیو نے جواب دیا  ، : ان کو دمے اور بافتوں میں گیس کا عارضہ تھا “

” یہ جان لیوا بیماریاں تو نہیں تھیں ان کا علاج کیوں نہیں کروایا ؟ پھر شی جن پھنگ نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا ، ” بہر کیف یہاں زندگی اب کیسی گزر رہی ہے ؟ ”

لیو نے جواب دیا ، ” میں یہاں ایک اچھی زندگی گزار رہی ہوں، خوراک ، لباس، روزمرہ کی دیگر ضروریات، یہاں ہر چیز بقدر ضرورت موجود ہے۔ ”

شی جن پھنگ نے ان کا ہاتھ تھاما اور انہیں اپنا بہت خیال رکھنے کی تاکید کی ۔ جاتے جاتے رکے اور پلٹ کر ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ، ” میں آپ سے دوبارہ ملنے آنے کے لیے کچھ وقت نکالوں گا ۔ ”   ان کا اگلا قیام لیو ہو شنگ کا گھر تھا جو کہ گاوّں ک بیچ بہتے دریا کی وجہ سے لیو لیان کے گھر سے قدرے فاصلےپر تھا ۔ لیو کا گھر، لیانگ جیا حہ میں قیام کے عرصے میں شی جن پھنگ کے دوسرے گھر کی حیثیت رکھتا تھا۔

جب لیو ہوشنگ ان کے استقبال کے لیے گھر سے باہر آئے تو شی جن پھنگ  نے ان کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا ، ” لباس اچھا ہے ” چانگ ووپھنگ نے  برجستہ کہا ، ظاہر ہے ، ہو شنگ کاروبار کا مالک ہے ۔ ”

لیو ہوشنگ نے قدرے شرمساری سے کہا، ” ہاں ، تین پہیوں والی سائیکل کا مالک ۔” شی جن پھنگ نے ایک قہقہہ لگایا اور پلٹ کر اپنی بیوی کو بتایا ، ” اس وقت ہو شنگ  بارہ ، تیرہ سال کا ہوتا تھا ، یہ میرا سب سے قریبی دوست تھا۔ ” لوگوں کا یہ ہجوم اب لیو کے صحن میں پہنچ گیا تھا ۔شی جن پھنگ نے اپنی اہلیہ پھنگ سے کہا ، ” دور آخر میں جو یہ غار ہے ، یہاں میں رہتا تھا۔  

میں اور ہو شنگ  تقریبا ہم عمر ہی ہیں ، ہم نے بہت سا وقت ایک ساتھ      گزارا تھا۔ جب یہ نوجوان تھا تب سے ہی یہ کھانے پکانےمیں بہت اچھا تھا ۔ اس نے میرے لیے کھانے بھی پکائے اور مجھے کچھ کھانے پکانے بھی سکھائے۔ اس وقت ہمارے پاس بہت سا تیل نہیں ہوتا تھا ، مگر  ہوشنگ بہت خوش تدبیر تھا۔ اس نے چند بادام لیے ، ان کو پیسا ، پھر ان کو ایک کڑاہی میں گرم کیا تاکہ ان میں سے کچھ تیل نکل آئے اور پھر اس میں کچھ آلو اور کدو ڈال دیئے۔ اس کا ذائقہ کافی اچھا تھا۔

اس غار گھر میں جہاں وہ دونوں رہتے رہے تھے ، شی جن پھنگ اور لو ہو شنگ اس وقت ایک دوسرے کے کندھےسےکںدھا ملائے ، پکی اینٹوں کے بنے بستر پر بیٹھے اپنے ماضی کی یادوں میں گم تھے ۔

شی جن پھنگ نے لو  کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا ، انہوں نے لو کو بتایا کہ انہیں اس کی صحت سے متعلق تشویش تھی کیونکہ انہوں نے دیکھا تھا کہ اسے چلنے میں کچھ دشواری ہو رہی تھی۔  اس کے جواب میں لو نے کہا ، ” ہموار سطح پر چلنے پھرنے میں تو مجھے کوئی دقت نہیں ہوتی لیکن

سخت مشقت کا کام اب مجھ سے نہیں ہوتا ، اسی لیے اب تین پہیوں والی سائیکل استعمال کرتا ہوں ”

اپنے پرانے گھر کے دورے کے بعد شی جن پھنگ نے لو ہوشنگ کی موجودہ رہائش گاہ  کودیکھنے کا ارادہ کیا۔ ان کے دوست کا نیا غار گھر ، خوبصورت ، روشن اور عمدگی سے آراستہ کیا گیا تھا ۔ دیوار پر آویزاں تصاویر کو دیکھتے ہوئے شی جن پھنگ نے فردا فردا  لو کے خاندان کے ہر فرد کے بارے میں دریافت کیا ۔

لو ہو شانگ کو خدا حافظ کہتے ہوئے انہوں نے لوگوں کے منتظر ہجوم کے ساتھ  گاوں میں اپنے سفر کا سلسلہ شروع کیا۔ حالانکہ کئی سال گزر چکے تھے مگر شی جن پھنگ کو راہ میں آتے ہر غار گھر کے مالک کا نام  یاد تھا۔

دریا کے ساتھ ساتھ سفر کرتے وہ جلد ہی اس غار گھر تک پہنچ گئے جہاں  لیانگ جیا حہ میں رہتے ہوئے انہوں نے پانچ سال قیام کیا تھا ۔ صحن میں موجود  ان چھے غار گھروں میں سے ایک میں شی جن پھنگ رہتے رہے تھے کہ جو ایک مقامی پیداوری  یونٹ نے ۱۹۷۰ میں تعمیر کیے تھے ۔ یہ وہ جگہ تھی کہ جہاں وہ ۱۹۷۵ میں، گاوں چھوڑنے کے وقت تک رہتے رہے تھے۔ اس غار گھر میں دیوار پر  ایک تصویری چوکھٹا آویزاں تھا ، اس چو کھٹے میں کمیونسٹ پارٹی کی گاوں کی شاخ کی جانب سے ارسال کردہ ایک دستی تحریری مراسلے کی نقل لگی ہوئی تھی ۔ اس مراسلے کی تحریر یہ تھی۔

”  پیپلز کمیون کی  پارٹی کمیٹی کی ۱۰ جنوری ۱۹۷۴ کی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا  ہے کہ اب کامریڈ شی یو شن ، شی فینگ لان اور شی جن پھنگ چین کی کمیونسٹ  پارٹی کی ارکان ہیں ۔ ”

اس غار کی بیرونی دیوار پر ،  گاوّں والوں کی جانب سے بہت سال پہلے آزمائشی طور پر بنائے گئے میتھین ٹینک  کے ساتھ ہی ، ہاتھ سے تحریر کردہ ایک اعلان نامہ تھا جس کے الفاظ تھے، ” خود انحصاری اور جان توڑ محنت”  یہ وہ پیغام تھا کہ جس کی وجہ سے وہ گزشتہ چالیس سال سے جانے جاتے تھے ۔

ہر پہاڑ ، ہر  چشمہ ، ہر فرد ۔ شی جن پھنگ کو سب یاد تھے  خود لیانگ جیا حہ کے دریااور بند یہ کہانی سناتے تھے کہ  کیسے نوجوان شی جن پھنگ نے گاوں والوں کی بہتر زندگی کی خاطر جدوجہد کی ۔

وہاں ، موگوا پہاڑوں کی وادی میں دیہات میں بھیجےگئے نوجوانوں کا تعمیر کردہ بند ہے ۔  اس وقت گاوں کے پارٹی چیف ، شی جن پھنگ اور ان کے ساتھی پارٹی ارکان نےایک ڈیم تعمیر کیا تاکہ کاشت کاری کے لیے زمین تیار کی جاسکے ، یہ زمین آج تک مقامی لوگوں کو فائدہ پہنچا رہی ہے ۔

وانگ شن جو ن  ان لوگوں میں شامل تھا کہ جنہوں نے اس بند کی تعمیر میں حصہ لیا ، اس وقت کے بارے  میں اپنی یادداشت بیان کرتے ہوئےوہ بے حد جذباتی ہو گیا اور اسے بیان کرتے ہوئے جب شی جن پھنگ کا  نعرہ پڑھا کہ جو انہوں نے ان سب کو متاثر کرنے اور تحریک دینے کے لیے تحریر کیا تھاتو شی جن پھنگ نے بے حد خوشگوار حیرت کے ساتھ متاثر ہوتے ہوئے کہا ، ” چالیس سال ہو  چکے ہیں اور تمہیں آج بھی یہ سب یاد ہے شی کو وہ سب یاد تھا ، ” اس وقت اس جمے ہوئے پانی میں چھلانگ لگاتے ہوئے ہم میں سے کسی نے بھی اس کے انجام یا نتائج کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔”

کام مکمل ہونے کے کچھ عرصہ بعد  شی جن پھنگ کو سردیوں میں ٹانگوں میں درد  کی تکلیف کو سہنا پڑا ، یہ نتیجہ تھا اس وقت کا کہ جو انہوں نے ڈیم کی تعمیر کے دوران وہاں گزارا تھا۔

شی جن پھنگ نے پوچھا ، ” جو ڈیم ہم نے بنایا تھا  کیا اس کو کبھی کوئی نقصان ہوا ؟ ”

شی چونگ یانگ نے جواب دیا ، ” ہاں ، ہوا تھا ، مگر ہم نے اس کی مرمت کر لی تھی ۔ “

شی جن پھنگ نے اس ڈیم کا بغور جائزہ لیا اور  شی چونگ یانگ کو کہا کسی بھی چوک یا غلطی سے بچنے کے لیے اس کو مزید مضبوط کرو تاکہ یقین ہو جائے کہ یہ محفوظ اور مضبوط ہے خاص طور پر شدید بارش کے دنوں میں ۔”

جب شی جن پھنگ نے سنا کہ یہاں قریب ہی سیب  کے درختوں کا ایک باغیچہ ہے تو انہوں نے وہاں کے مختصر دورے کا فیصلہ کیا۔  جب وہ اس گاوّں میں رہا کرتے تھے تب یہ زمین خالی بنجر ہوتی تھی مگر اب یہ ایک منافع بخش باغیچہ تھا ۔

جب شی جن پھنگ گاوّں والوں کی سیب کے کاروبار کو ترویج اور بڑھاوا دینے کی کاوشوں اور اس سخت  محنت کے نتیجے میں ہر گھر کو نلکے کے پانی اور انٹرنیٹ کے رابطے کی سہولت میسر ہونے کے بارے میں سن رہے تھے تو ان کے چہرے پہ ایک آسودہ مسکراہٹ دیکھی جا سکتی تھی ۔

SHARE

LEAVE A REPLY