معمولاتِ خوردونوش
شی جن پھنگ کا معدہ ان اشیاء کا عادی بن گیاجن کو اس سے پہلے ان کا معدہ ہضم کرنے کے قابل نہیں تھا۔ جب شی جن پھنگ اور ان کے ساتھی پہلی مرتبہ لیانگ جیا حہ میں آئے تو ابتداء میں کچھ عرصہ انہوں نے د یہاتیوں کے گھروں میں کھانا کھایا۔ ان کی خوراک میں مکئی اور لوبیے سے بنے کلچے شامل ہوتے جو کہ دیہاتیوں کےلیے بہت قابلِ قدر اورقیمتی تھے۔جب کبھی وہ کھاتے تو بچے ان کے پاس کھڑے ہو کر ان کو اشتیاق سے دیکھا کرتے۔گاؤ ں میں زندگی بیجنگ والی زندگی سے بہت مختلف تھی تاہم پھر بھی وہ دیہاتیوں سے بہتر زندگی گزار رہے تھے۔
لیانگ جیا حہ میں دیہاتیوں کی جانب سے ریاست کو غلے کی پیداوار کا نصف دیے جانے کے بعد ان کے پاس ہر فر دکے لیے ماہانہ تقریباً د س کلوگرام غلہ بچ جاتا تھا۔ یہ ان نوجوانوں کےلیے مختص راشن کی مقدار کا نصف تھا۔ دیہاتی اپنا پیٹ بھرنے کے لیے گندم کے چھلکے سے بنے کلچے اور اناج کے لیے استعمال ہونے والے ایک پودے کے پتے کھایا کرتے تھے۔
جب ان نوجوانوں نے اپنے لیے خود کھانا بنانا شروع کیا تو تب انہیں احساس ہوا کہ مقامی حالات میں کھانا بنانا کتنا مشکل اور دشوار ہے۔ سب سےپہلی مشکل جلانے کے لیے لکڑیوں کی دستیابی تھی جو کہ بے حد کم ملتی تھیں اس لیے وہ اکثر آدھے کچے چاول کھاتے۔
کچھ عرصے بعد ان کو گاؤ ں میں جمع شدہ مکئی کے پتوں کو جلانے کی اجازت دے دی گئی جس سے کم ازکم ان کا آگ جلانے کا مسئلہ تو حل ہوا۔ مگروہ ہمیشہ بھوک کا شکار رہتے۔ رات کو وہ جب اپنے اینٹوں کے بستر پر سوتے تو وہ اکثر خوراک کے بارے میں بات کرتے۔جتنی زیادہ وہ بات چیت کرتے اتنی زیادہ انہیں بھوک محسوس ہوتی۔
ریکارڈ کے مطابق ایک سال بعد حکومت نےان نوجوانوں کو خوراک کی فراہمی روک دی ۔ اس حکومتی فیصلے کے بعد چالیس فیصد نوجوان اپنے لیے خوراک کا انتطام کرنے میں ناکام رہے۔
شی جن پھنگ کے مطابق ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے تین ماہ تک کسی قسم کا تیل نہیں چکھا۔ ایک مرتبہ موسم سرما میں ان کے اہلِ خانہ نے ان کے لیے کچھ رقم بھجوائی ۔ اس رقم سے انہوں نے اور ان کے ایک ساتھی نے چند کلوگرام منجمد گوشت خریدا۔ ہم نے اس گوشت کو کاٹا اور بغیر پکائےہی کھا لیا۔ وہ بہت ذائقے دار تھا۔
بعض اوقات پیداواری ٹیمیں گندم کو پیس کر اس کا آ ٹا نکالتیں اور اس کو تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دے دیتیں تا کہ وہ ایک مناسب کھانا کھا سکیں۔
شی جن پھنگ کے ایک نوجوان ساتھی کو وہ وقت یاد ہے کہ جب وہ پہاڑوں پر کام کےلیے گئے تو شی جن پھنگ اپنے ساتھ آٹے سے بنا ایک کلچہ لائے ۔جب دوپہر کے کھانے کا وقت آیا تو انہوں نے دیکھا کہ تمام دیہاتی گند م کے چھلکے سے بنا کلچہ کھا رہے تھے ، انہوں نے ان کےسامنے آٹے سے بنا کلچہ کھانا مناسب نہ سمجھا ۔ انہوں نے اپنا وہ کلچہ ایک خاتون کو کھانے کے لیےدے دیا اور خود دوپہر کاکھانا نہ کھایا۔
لیانگ جیا حہ میں سات سالہ قیام کے دوران شی جن پھنگ نے صر ف ایک مرتبہ کھانے میں چاول کھائے۔ چاولوں کا یہ ایک پیالہ انہیں لی ینِ تانگ نامی ایک فرد نے دیا تھا جو کہ ان کے قریب ہی کام کرتاتھا اور ان کا اچھا دوست بن گیا تھا۔
مشکلات کے باوجود لیانگ جیا حہ میں شی جن پھنگ نے دیہاتیوں کی محبت اور خلوص کو محسوس کیا۔
شی جن پھنگ کا کہنا تھا کہ” جب مجھے بھوک لگتی تو وہ میرے لیے کھانا بناتے ۔ جب میرے کپڑے گندے ہوتے تو وہ ان کو میرے لیے دھو دیتے ۔ جب میری پتلونیں پھٹ جاتیں تو وہ ان کی سلائی کردیا کرتے۔”
لیانگ جیا حہ میں اپنے قیام کے دوران شی جن پھنگ نے جو کام سب سے زیادہ کیا وہ بند بنانے کا تھا۔ اس وقت دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر کیے جانے والے تعمیراتی کام کے لیے مشینیں دستیاب نہیں ہوتی تھیں ۔ بند بنانے کے لیے تہہ در تہہ مٹی بچھا کر پھر بھاری پتھروں کی بھرائی کی جاتی اور اس کے بعد اسے کوٹا جاتا تھا تاکہ نرم مٹی کی تہیں مضبوط دیوار میں تبدیل ہو جائیں ۔ یہ سخت جسمانی مشقت کا کام تھا ۔
گاوَں والوں کے مطابق ایک فرد کو ایک دن میں مٹی اور پتھروں سے بھری دو سو ریڑھیاں کھیینچنی ہوتی تھیں ان کے پاس کسی قسم کے حفاظتی لوازمات مثلًا موٹے گدے دار دستانے وغیرہ نہیں ہوتے تھے ۔ صبح و شا م اس قدر جان توڑ محنت کی وجہ سے شی جن پھنگ کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ، ان کے ہاتھ پھٹنے لگ گئے اور ان میں سے خون بھی رسنے لگ گیا ۔ مگر اس سب تکلیف اور تھکاوٹ کے باوجود شی جن پھنگ نے کسی بھی کام کو مکمل کیے بغیر نہ چھوڑا ۔ گاوَں والوں نے بھی دیکھا کہ اس نوجوان نے کبھی بھی کام سے پہلو تہی نہیں کی۔
عمومی طور پر بند کی تعمیر کا کام موسم سرما میں اس وقت کیا جاتا تھا کہ جب کاشت کاری کم ہو تی تھی لیکن تب بھی یہ موسم ڈیم بنانے کے لیے مشکل ترین وقت تھا ۔ منجمد کیچڑ کو کھودنا ، وزنی ریڑھیوں کو دھکیلنا اور مٹی کو اس وقت تک کوٹنا کہ جب تک وہ پختہ نہ ہو جائے یہ سب بے حد کٹھن اور مشقت آمیز کام تھے ۔ ایک مقامی ساتھی کو اب بھی یاد تھا کہ وہ قمری کیلنڈر کے مطابق فروری اور مارچ کے مہینے تھے جب ابھی برف کے پگھلنے کا آغاز ہی ہوا تھا ، شی جن پھنگ اور ان کے ساتھی پتلون کے پائنچے دہرے کیے اس یخ بستہ برفیلے پانی میں ننگے پاوَں کھڑے ہو کر ہائیڈرالک بند کی تعمیر کا کام کرتے رہے ۔
جب شی جن پھنگ کو لیانگ جیا حہ میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے پیداواری گروپ کی شاخ کا سیکریٹری منتخب کیا گیا تب تک شی جن پھنگ اور ان کے ساتھی دیہاتی لیانگ جیا حہ میں چار بند تعمیر کر چکے تھے ۔ اس وقت کی پیداواری ٹیم کے سابقہ سربراہ اس دور کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان ڈیمز کی تعمیر کے بعد گاوَں میں مکئی کی فصل کی پیداوار دوگنا بڑھ گئی تھی ۔
جس دوران شی جن پھنگ ایک کسان کے طور پر اپنی زندگی میں تجربات حاصل کر رہے تھے اسی دور میں وہ ان تجربات کے ساتھ ساتھ کتب کے ذریعے ذہنی و روحانی بالیدگی بھی حاصل کرتے رہے ۔
لیانگ جیا حہ کے لوگ اس لڑکے کی کتب سے دلچسپی سے بے حد متاثرتھے جو اینٹوں جیسی موٹی بھاری کتب اس وقت بھی پڑھ رہا ہوتا تھا کہ جب وہ کھا نا کھا رہا ہوتا ، وہ بکریاں چراتے ہوئے بھی کتاب کا ساتھ نہیں چھوڑتا تھا۔
اس وقت گاوَں میں بجلی نہیں ہوتی تھی اس لیے تمام لوگ جلدی سوجاتے تھے ۔ تب بھی شی جن پھنگ کے غار گھر سے روشنی کی ایک لکیر باہر نکلتی رہتی تھی ، وہ اکثر رات دیر گئے تک سگریٹ پیتے ہوئےپڑھتے رہتے تھے ۔ جس چراغ کی روشنی میں وہ مطالعہ کرتے تھے وہ کیروسین کا وہ لیمپ تھا جو کہ ایک روشنائی کی بوتل سے بنایا گیا تھا ۔ یہ بہت زیادہ دھواں چھوڑتا تھا مگر روشنی مدھم ہونے کی وجہ سے شی جن پھنگ کو اس کے بہت قریب ہو کر پڑھنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے اکثر ان کا چہرہ اس کے دھوئیں سے سیاہ ہو جاتا تھا ۔
مارچ دو ہزار تیرہ میں برکس ممالک کے ایک صحافی کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا ، ” میرے بہت سے مشاغل ہیں ، تاہم میرا سب سے بڑا شوق مطالعہ ہے اور یہ میرے طرز زندگی کا حصہ ہے ۔ ”
فروری دو ہزار چودہ ، شی جن پھنگ نے سوچی میں ایک روسی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا۔ میزبان نے سوال کیا کہ انہوں نے روسی ادب میں کن کو پڑھا ہے ؟ شی جن پھنگ نے الیگذینڈر پشکن ، میخائل لیرمونٹوو، فیودور دوستوسکی اور دیگر بہت سے نام گنوائے اور کہا، “یہ بالکل بھی مبالغہ آرائی نہیں ہے ، اس وقت جتنا بھی ادبی کام مجھےملا،میں نے وہ سب پڑھا ،یہ جو جملے اکثر بے ساختگی میں میرے منہ سے ادا ہو جاتے ہیں زیادہ تر یہ وہی باتیں ہوتی ہیں کہ جو میں نے اس وقت میں پڑھی تھیں ۔ ”
ان دنوں شی جن پھنگ نے ولیم شیکسپئر کے کام کو تلاش کرنے اور اسے پڑھنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا تھا۔ انہوں نے شیکسپیئر کے A Mid summer night dream , Twelfth night , Romeo and Juliet , Hamlet , Macbeth , The Merchant of Venice, اور دیگر ڈرامے پڑھے تھے ۔
شی جن پھنگ کی نظر میں اچھا ادب ناصرف ذہن کو روشن کرتا ہے بلکہ یہ مختلف ممالک اور ان کے لوگوں کے بیچ ہم آہنگی اور رابطے کو فروغ دینے میں بھی مددگار ہوتا ہے ۔
لیانگ جیا حہ میں دو تین سال کے بعد شی جن پھنگ نے مقامی یان چو آن لہجے میں بات چیت کرنے پر عبور حاصل کر لیا۔
زمین کھودنے کا کام ہو ، کھاد کے تھیلے کندھے پر اٹھانے ہوں ، ہل چلانا ہو یا کدال سے کھدائی کرنی ہو یا پھر کھیتوں سے فصل کاٹنے کا موقع ہو ،شی جن پھنگ یہ سب کچھ ویسے ہی کرتے کہ جیسے وہاں کے مقامی لوگ کر رہے ہوتے تھے ۔ جب بھی کوئی بات یا کام ان کی سمجھ سے باہر ہوتا وہ اس کے بارے میں مقامی لوگوں سے رہنمائی لے لیتے ۔ آہستہ آہستہ وہ کھیتی باڑی کے تمام پہلووَں سے واقف ہوتے چلے گئے اور ایک ماہر کسان بن گئے ۔
شی جن پھنگ کہتے ہیں کہ ” ان کسانوں سے جو سب سے اہم بات میں نے سیکھی وہ ان کا ،مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے اپنے جذبے کو برقرار رکھنا تھا۔”انہوں نے فخر کے ساتھ کہا کہ میں ایک کسان ہوں ۔
رفتہ رفتہ شی جن پھنگ کی رہائش گاہ یعنی ان کا غار گھر ، لیانگ جیا حہ کی زندگی کا مرکز بنتا گیا ۔ لوگوں کو وہاں آنا ، ہلکی پھلکی گپ شپ لگانا ، تاریخ کے بارے میں یا باہر کی دنیا کی خبروں کو ان سے سننا اچھا لگتا تھا ۔ وہ صحیح معنوں میں لیانگ جیا حہ گاوَں کے فرد بن گئے تھے ۔
انیس سو تہتر کی بہار کے آغاز میں ، شی جن پھنگ کو عارضی طور پر چاوَ جیا حہ کے پیداواری گروپ میں تعینات کیا گیا ۔ وہاں پر شی جن پھنگ کے پہنچنے سے پہلے یہ حال تھا کہ لوگ اشتراکی تعلیمات کےلیے بلائی گئی عوامی میٹنگز میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ جو لوگ ایسی میٹنگز میں تقاریر کر رہے ہوتے تھے وہ یوں لگتا تھا کہ اپنے آپ سے باتیں کر رہے ہوں کیونکہ اس دوران لوگ بے فکری کے ساتھ ایک دوسرے سے گپیں لگارہے ہوتے تھے ، خواتین تو اپنا سلائی کڑھائی کا کام تک یہاں لے آتیں اور بیٹھ کر کڑھائی کا کام کرتی رہتیں ۔ مگر شی جن پھنگ کے آنے کے بعد لوگوں نے ان میٹنگز پر
نا صرف یہ کہ وقت پر آنا شروع کردیا بلکہ ان میٹنگز میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے بھی کسی تردد کی ضرورت نہ رہی ۔ اس گاوَں کا ایک فرد رن ہاو چھنگ ، جو اپنہی حس مزاح اور جملہ بازی کی وجہ سے مشہور تھا اس بارے میں کہتا ہے کہ ” جب شی جن پھنگ بولتےتو لوگ ان کی باتوں میں اس قدر محو ہو جاتے کہ اپنی نشست سے ایک انچ بھی حرکت نہ کر پاتے تھے “۔
شی جن پھنگ لوگوں کے مزاج کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ لوگ کیا سننا چاہتے ہیں ۔ جو موضوعات وہ چنتے تھے وہ ایسے ہوتے تھے کہ جن میں عام لوگ بہت دلچسپی لیتے تھے ۔ جب وہ اپنی اشتراکی تعلیمات سے متعلق میٹنگز بلاتے تھے تو ان میں وہ بے حد سنجیدہ نوعیت کے پیغامات کو ہلکی پھلکی اور دلچسپ سرگرمیوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے وہ مقامی رسوم و رواج اور اور انسانی تاریخ کے بارے میں بہت گفتگو کرتے ۔
چاوَ جیا حہ میں شی جن پھنگ نے رات کے وقت میں ایک اسکول بھی شروع کیا جہاں وہ مقامی لوگوں کو ان کے کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد پڑھنا اور لکھنا سکھاتے تھے ، گاوَں کی ایک خاتون چاوَ شو می نے کہا کہ رات کے اس اسکول کی وجہ سے ہی میں نے اپنا نام لکھنا سیکھا۔
شی جن پھنگ نے چاوَ جیا حہ میں آٹھ ماہ تک قیام کیا ۔ جب وہاں ان کا کام ختم ہوا پارٹی کے مقامی سیکریٹری نے چاہا کہ شی جن پھنگ وہیں قیام کریں مگر جب ان کی پرانی کمیون کے سیکریٹری کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے کہا ، ” آپ اس کی خواہش ہی رکھیے ، بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے اس قدر قابل آدمی کو آپ کے پاس ہی چھوڑ دیں ۔ ”