صدر شی جن پھنگ کا بو آو ایشیائی فورم کے سالانہ اجلاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب

0

بو آو ایشیائی فورم کے سالانہ اجلاس دو ہزار اٹھارہ کی افتتاحی تقریب دس تاریخ کی صبح صوبہ حہ نان کے قصبے بوآومیں شروع ہوئی۔ افتتاحی تقریب سے چینی صدر شی جن پھنگ نے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں جناب شی جن پھنگ نے چین کی کھلی پالیسی اور  اصلاحات کے نئے روڈ میپ پر روشنی ڈالی ۔ چینی صدر نے   ایشیا اور دنیا  میں بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر ، ایشیا اور دنیا کے روشن مستقبل کے بارے میں چین کاموقف پیش کیا۔
موجودہ بو آو ایشیائی فورم میں دنیا سےآنے والی دو ہزار سے زائد  شخصیات شریک ہیں۔ اس اجلاس میں چینی رہنماوں کے علاوہ پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریز سمیت مختلف ممالک  اور بین الاقوامی تنظیموں کے رہنما بھی شریک ہیں۔

چینی صدر مملکت شی جن پھنگ نے بو آو ایشیائی فورم سے خطاب کرتے ہوئے  کہا ہے  کہ بوآو ایشیائی فورم کے قیام کے بعد ایشیا
کی بنیاد پر
 دنیا کا سامنا کرتے ہوئے ایشیائی ممالک کے اتفاق رائے کے تحت مختلف فریقوں کے درمیان تعاون کے فروغ  اور معیشت کی عالمگیریت نیز  بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے قیام کے سلسلے میں بڑی تعداد میں قابل قدر تجاویز پیش کی گئیں۔

صدر شی جن پھنگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ گزشتہ چالیس برسوں میں  چینی عوام نے اصلاحات اور کھلے پن کی پالیسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اپنی توجہ ملک کی تعمیر پر مرکوز رکھی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں چین کی پیداواری قوت میں خوب اضافہ ہوا اور  چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ، سر فہرست صنعتی ملک ،پہلے نمبر پر مالی تجارتی ملک اور سب سے زیادہ ذر مبادلہ رکھنے والا ملک بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چالیس برسوں میں چین کی اندرونی پیداواری مالیت کی شرح میں سالانہ نو اعشاریہ پانچ فیصد اضافہ ہوا جبکہ بیرونی تجارتی حجم کی شرح میں سالانہ چودہ اعشاریہ پانچ فیصد  کا اضافہ رہا  ۔ جناب شی جن پھنگ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے طےکردہ معیار کے مطابق  اس دوران چین میں سترکروڑ سے زیادہ آبادی نے غربت سے چھٹکارا حاصل کیا جو مذکورہ عرصے میں پوری دنیاکی کل تعداد کا ستر فیصد بنتی ہے۔

چین کے  صدر مملکت شی جن پھنگ نے کہا کہ گزشتہ چالیس برسوں میں چین نے  اپنی  صورتحال کی  بنیاد پر دنیا  پر  نظر  رکھتے ہوئے خود مختارانہ طور پر  اپنے پاوں  پر کھڑ ے  ہوتے ہوئے کھلے پن اور دوسرے ممالک  کے  ساتھ  تعاون اور مشترکہ ترقی  کو بھی انتہائی اہمیت دی ہے ۔ علاوہ ازیں  چین سوشلسٹ نظام کے ساتھ  ساتھ سوشلسٹ منڈی کی معیشت کو اہمیت دیتے ہوئے چینی خصوصیات کے حامل سوشلسٹ نظام  کی راہ پر  کامیابی سے گامزن  رہا ہے ۔ انہوں نے اس بات پر  زور دیا کہ چین کی کامیابی نے دنیا کو بتایا ہے کہ  جدت کی راہ صرف ایک نہیں بلکہ  درست سمت کی جانب  کوشش سے   ہر راہ اپنے منزل مقصود  تک پہنچ جائے گی ۔

بو آو ایشیائی فورم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ گزشتہ چالیس برسوں میں  چین ایک بند ملک سے ہمہ گیر طور پر کھلا ملک بن چکا ہے اور  بین الاقوامی رابط سازی سمیت  دیگر متعلقہ امور میں ایک بڑے ذمہ دار ملک کی حیثیت سےاپنا کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے ۔چین میں ایک بڑی تعداد میں  غیر ملکی سرمایہ کاری آئی ہے اور  اب چینی سرمایہ کاری پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ ڈبلیو ٹی او میں شمولیت سے لے کر دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹیو پیش کرنے  تک، چین نے ایشیا اور عالمی مالیاتی بحران کے خاتمے کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے اور گزشتہ  کئی برسوں سے عالمی اقتصادی ترقی میں چین کی خدمات کا تناسب تیس فیصد سے تجاوز کیے ہوئے ہے جس کی بدولت چین  عالمی معیشت کے استحکام  اور  ترقی کو برقرار رکھنے کی ایک بڑی قوت بن گیا ہے۔کھلی پالیسی اور  اصلاحات چین کا دوسرا انقلاب ہے۔یہ چینی عوام کی خواہشات، اور  جدت اور ترقی و خوشحالی کے لئے پوری دنیا کے عوام کی امنگوں اور  وقت کے تقاضے سے ہم آہنگ ہے۔

چینی صدر مملکت شی جن پھنگ نے کہا کہ امن اور ترقی دنیا کے تمام ممالک کے عوام کی دلی اور مشترکہ خواہش ہے ۔ انہوں نے کہاکہ سرد جنگ اورمحاز  آرائی کا پرانا تصور پیچھے رہ گیا ہے ۔جناب شی نے کہا کہ تعصب اور خود غرضی ایک بند گلی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مختلف ممالک کے درمیان معاشی اور سماجی ترقی کے لیے باہمی روابط میں روز بروز اضافے کے ساتھ ساتھ اثرات مرتب ہوتے  رہے ۔ روابط اور مواصلات میں اضافہ اور ہم آہنگ ترقی دنیا کی مشترکہ خوشحالی اور ترقی کا لازمی انتخاب ہے ۔ صدر  شی جن پھنگ نے  پرزور الفاظ میں کہا کہ اصلاحات اور تخلیق بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کو آگے بڑھانے کا بنیاد ی انجن ہیں ۔جو لوگ اصلاحات اور تخلیق کی مخالفت کرتے ہیں ، وہ پیچھے رہ جائیں گے اور تاریخ  کے دریا میں ڈوب جائیں گے  ۔

چینی صدر نے اپنے خطاب میں تمام ممالک سے ایک دوسرے کے احترام ، مساویانہ سلوک کرنے  ،خود غرضی، بالادستی ، فتح اور  شکست کے تصورات کو   ترک کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ معقول طریقے سے تنازعات کو حل کیا جائے، بات چیت کے ذریعے عالمی ادارے کے چارٹر  اور  بین لااقوامی قوانین و ضوابط کی حفاظت کی جائے ،  متحد ہو کرجامع سیکیورٹی کو  یقینی بنایا جائے۔مشترکہ مفادات کےلئے تعاون کیا جائے ، شراکت داری پر مبنی عالمی معیشت کو فروغ دیا جائے۔ صدر شی نے مزید کہا کہ  آزاد تجارت و سرمایہ کار ی اور  کثیرالطرفہ تجارتی نظام  کو تقویت دی جائے، مختلف ثقافتوں اور  تہذیبوں کے درمیان باہمی مفاہمت کو مضبوط کیا جائے ،ماحول کی حفاظت کی جائے ، بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کی جائے  اور  پرامن  ، محفوظ، خوشحال، کھلے اور  خوبصورت ایشیا اور  دنیا کے لئے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔

انہوں نے کہا چین خواہ کتنے ہی مراحل  تک ترقی کرے گا ، وہ  کسی کے لئے خطر ےکا باعث نہیں ہو گا  اور نہ ہی موجودہ بین الاقوامی نظام میں کوئی خلل ڈالے  گا ۔اس کے علاوہ اپنی طاقت  کے دائرہ کار کے قیام کی کوشش نہیں کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ چین ہمیشہ عالمی امن و ترقی  کے لئے کوشش کرتاہے اور بین الاقوامی نظام کا تحفظ کرتا ہے ۔ انہوں نے پر زور الفاظ میں  کہا کہ چین باہمی مفادات اور مشترکہ ترقی کی تزویراتی پالیسی پر  قائم رہے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ  چین اعلی معیار کی تجارت اور آزاد انہ سرمایہ کاری پر زور دے گا جبکہ چینی خصوصیات کی حامل آزاد تجارتی بند گاہوں کی تعمیر  بھی  کی جائے گی ۔

چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ رواں سال چینی حکومت چند علامتی اقدامات اختیار کریگی تاکہ چینی منڈی میں داخلے کے لیے زیادہ آسانی ہو۔ انہوں نے کہا ان اقدامات میں سروس خاص طور مالیاتی میدان میں بینکنگ، اسٹاک اور  انشورنس اداروں میں غیرملکی سرمایہ کاری  کی حوصلہ افزائی، چین میں غیرملکی مالیاتی اداروں کے قیام کے حوالے سے باپندیوں میں کمی، چین میں مزکورہ غیرملکی اداروں کے کاروبار کے دائرہ کار میں وسعت، مالیاتی منڈی میں بیرونی تعاون میں اضافہ، میینو فیکچرنگ  میں کار سازی، ہوائی اور  بحری جہازوں کی تیاری سمیت مختلف  شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے تناسب میں اضافہ وغیرہ شامل ہے۔

چینی صدر  مملکت شی جن پھنگ نے کہا  کہ سرمایہ کاری کا ماحول ہوا کی مانند ہے اور صاف و شفاف  ہوا سے زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری موصول ہو سکے گی ۔ انہوں نے کہا کہ چین بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی قوانین و ضوابط  کے تحت علمی اثاثوں کے تحفظ کو مضبوط بنائے گا ۔ مسابقت کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جبکہ اجارہ داری کی مخالفت کی جائے گی ۔  جناب شی جن پھنگ نے کہا کہ رواں سال کی پہلی ششماہی میں  بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے منفی فہرست میں ترمیم کا کام مکمل ہو گا اور سرمایہ کاری کے لیے رسائی سے قبل مقامی باشدوں کے  لیےمساوی سلوک  اور منفی فہرست کے انتظامی ںظام پر عمل درآمد کیا جائے گا ۔

انہوں نے اپنے خطاب میں  کہا کہ  علمی حقوق کی حفاظت چینی معیشت کی مسابقتی صلاحیت کو بلند کرنے کی ضمانت ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال چینی حکومت علمی حقوق کا نیا قومی بیورو قائم کرے گی اورمتعلقہ قوانین نافذ کرنےکو  فوقیت دیگی جبکہ قانون کی خلاف ورزی پر سزا کو مزید سخت کریگی ۔ انہوں نےپر زور الفاظ میں کہاکہ چینی حکومت چینی اور غیرملکی صنعتی و کاروباری اداروں کے درمیان معمول کے تکنیکی تبادلوں ا ور تعاون کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ جناب شی کا کہنا تھا کہ بیک وقت چین کو امید ہے کہ غیرملکی حکومتیں بھی چین کے علمی حقوق کی حفاظت کے لئے زیادہ کوشش کریںگی۔

شی جن پھنگ نے کہا کہ چین  صرف  تجارتی منافع  کو اپنا مقصد نہیں بناتا  اور  درآمدات کو بڑھانے کا خواہاں ہے  ۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال چین میں کاروں کے درآمدی محصولات میں بڑی حد تک کمی لائی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر مصنوعات کے محصولات میں بھی کمی کی جائے گی ۔ اس کے علاوہ عوام کی زیادہ مانگ والی خصوصی اور بہترین مصنوعات کی درآمد میں بھی اضافے کی  کوشش کی جائے گی ،علاوہ ازیں عالمی تجارتی تنظیم کے تحت حکومت کی خریداری کے معاہدے میں شمولیت کے عمل کو تیز تر کیا جائے گا ۔ شی جن پھنگ نے ترقی یافتہ ممالک سے چین کے ساتھ اعلی تیکنیکی مصنوعات کی برآمدات پر عائد مصنوعی پابندیوں  کو اٹھانے کا مطالبہ بھِی کیا ۔

چینی صدر شی جن پھنگ نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا  کہ پانچ سال پہلے انہوں نے دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹو پیش کیا۔ اس کے بعد سے اب تک چین نے اسی سے زائد  ممالک  اور  بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ دی بیلٹ اینڈ روڈ کے حوالے سے تعاون کے معاہدے طے کئے ہیں۔دی بیلٹ اینڈ روڈ کی تعمیر  کے سلسلے میں چین اپنا  ہم خیال حلقہ   تشکیل نہیں دے گا اور  اپنے تصورات کو دوسروں پر مسلط نہیں کریگا۔تمام فریقوں کے ساتھ مشترکہ بات چیت، مشترکہ تعمیر اور مشترکہ خوشحالی کے اصول کی بنیاد پر دی بیلٹ اینڈ روڈ کے سلسلے میں تعاون کریںگے  اور بین الاقوامی تعاون کا سب سے وسیع پلیٹ فارم قائم کریںگے جو  کہ معیشت کی عالمگیریت کے رجحان کے مطابق ہے۔
 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here