چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شیانگ نے تین تاریخ کو بھارتی فوج کے سرحد پار کرنے کے حوالے سے نامہ نگاروں کے سوالات کا جواب دیا۔
ایک سوال پوچھا گیا کہ کل چین نے بھارتی سرحدی فوج کی جانب سے چین بھارت سرحدی علاقے سکم کو پار کرتے ہوئے چین کی حدود میں داخل ہونے کی حقیقت اور چین کے موقف کی وضاحت کے لئے ایک دستاویز جاری کی۔ اس دستاویز میں کہا گیا کہ سولہ جون کو چین نےتونگ لانگ علاقے میں شاہراہ کی تعمیر شروع کی۔ اس سے پہلے چین نے اپنی تعمیر کے حوالے سے بھارت کو آگاہ کیا۔ تعمیر کا کیا مقصد ہے؟ بھارت کو کیسے بتایا گیا؟ بھارت کا کیا ردعمل ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے گینگ شیانگ نے کہا کہ سولہ جون کو چین نے چین بھارت سرحدی علاقے سکم میں چین کے علاقے میں تعمیر شروع کی۔ جس کا مقصد مقامی نقل و حمل کو بہتر بناتے ہوئے مقامی گلہ بانوں اور سرحدی گارڈز کی گشت کے لئے سہولت فراہم کرنا۔ چین کی اپنی حدود میں تعمیر اتی سرگرمی مکمل طور پر مناسب اور قانونی ہے۔
چین نے اٹھارہ مئی اور آٹھ جون کو سرحدی دفاعی نظام کے ذریعے دو دفعہ بھارت کو تعمیر کے حوالے سے آگاہ کیا تھا۔ لیکن بھارت کی طرف سے کوئی ردِ عمل نہیں ملا۔ اٹھارہ جون کو بھارتی سرحدی فوج کے ستائیس اہلکاروں نے ہتھیاروں اور دو بلڈوزر ز کے ہمراہ سکم سرحد کو پار کرتے ہوئے ایک سو میٹر کی حدود میں داخل ہوئے۔ انہوں نے چینی حدود میں چین کی تعمیراتی سرگرمی کو روکنے کی کوشش کی۔
دو اگست تک بھارتی فوج کے اڑتالیس اہلکار اور ایک بلڈوزر چین کی حدود میں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، بھارتی فوج کے متعدد مسلح افراد سرحدی لائن اور سرحدی لائن کے بھارتی طرف موجود ہیں۔
۱۸۹۰ میں چین اور برطانیہ کے درمیان منعقدہ ایک کانفرنس کے دوران تبت بھارت معاہدے کی روشنی میں تبت اور سکم کی سرحد کا واضح تعین کردیا گیا تھا، جس کے مطابق، یہ علاقہ تونگ لانگ چین کا ملکیتی علاقہ ہے۔بھارتی سرحدی فوج کی جانب سے سرحدی لائن کی بھارتی حدود سے چین کی حدود میں داخل ہونے کی حقیقت واضح ہے۔ بھارت نے چین اور بھارت کے درمیان موجودہ نظام کونظرا انداز کرتے ہوئے کسی بھی بات چیت کے بغیر ہتھیاروں کے ساتھ چینی حدود میں داخلے کے لئے اپنی فوج کو بھیج دیا۔ یہ غیر ذمہ دارانہ، غیر محتاط قد م ہے ۔ تاہم بھارت کے کتنے افراد غیر قانونی طور پر سرحد پار کر کے چین کی حدود میں رہتے ہیں، یہ چین کی علاقائی سالمیت کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اقوام متحدہ کے منشور کے سخت خلاف ہے۔بھارت کو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیئے۔