چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ نے دو ہزار تیرہ میں دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو پیش کیا اور اب یہ حقیقی تعاون کے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے ۔ چینی صنعتی اداروں اور کمپنیوں نے دی بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ ممالک کی اپنی اپنی خصوصی صورتحال اور صارفین کے رجحانات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مخصوص مصنوعات اور خدمات کی تیاری کی ہےاور اس کے ساتھ ساتھ بیرونی شراکت داروں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے بھر پور کوشش کی جاتی ہے اور روز گار کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں ۔
ایک مثال لیجئے ۔چین کے صّوبہ شان دونگ میں ایک روای نامی کمپنی ہے ۔ اس کمپنی کی پارچہ بافی کی مصنو عات کو پاکستان اور بنگلہ دیش کی منڈی میں اچھے انداز میں فروخت کیا جاتا ہے ۔ دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو پیش کیے جانے کے بعد رو ای کمپنی نے پاکستان میں اپنے کارخانے کے قیام کا آغاز کیا ۔ اس کے دوران رو ای کمپنی نے دیکھا کہ بجلی کی قلت مقامی معیشت کی ترقی کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ اس کے پیش نظر رو ای کمپنی نے ہوا ننگ گروپ کے ساتھ مل کر ساہیوال تھرمل بجلی گھر کے قیام کے لیے سرمایہ کاری کی ۔ اور اس منصوبے کو سی پیک کے تحت توانائی کا ترجیحی منصوبہ قرار دیا گیا ۔ دو ہزار پندرہ میں اس بجلی گھر کی تعمیر کے بعد مقامی تعمیراتی سازوسامان ، سیمنٹ کی منڈی میں روز گار کے بہت زیادہ مواقع فراہم کئے گئے ہیں۔ رو ای کمپنی کے دائریکٹر جنرل ہان شیاو چحون کا کہنا ہے کہ اس تھرمل بجلی گھر سے رواں سال کی پہلی ششماہی میں بجلی کی پیداوار کا امکان ہے ۔ تب مقامی علاقے میں بجلی کی قلت کا مسئلہ دور ہو گا ۔