شمالی کوریا کے خلاف فوجی کارروائی کر سکتے ہیں، امریکی وزیر خارجہ

0

سیئول / ٹوکیو / واشنگٹن: امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن گزشتہ روز شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان غیرفوجی علاقہ میں پہنچ گئے۔

امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا، شمالی کوریا کے خلاف فوجی کارروائی بھی ایک آپشن ہے یعنی ضرورت پڑنے پر فوجی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔ اسٹرٹیجک برداشت کی پالیسی کا خاتمہ ہو چکا اور امریکا اب سفارتی، سیکیورٹی اور اقتصادی اقدامات جیسے نئے پہلوؤں پر غور کر رہا ہے۔ شمالی کوریا نے حالیہ مہینوں میں میزائل اور جوہری ہتھیاروں کے تجربات کیے ہیں جس سے خطے میں کشیدگی ہے۔ اگر شمالی کوریا اپنے ہتھیاروں کے پروگرام کی دھمکی کو اس سطح پر بڑھا دیتے ہیں کہ ہمیں لگتا ہے کہ کارروائی کی ضرورت ہے تو پھر وہ آپشن بھی زیرغور ہے۔

ریکس ٹیلرسن نے جنوبی کورین اپنے ہم منصب یون بائی یو نگ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا موجودہ جنگی قوت اور ہتھیاروں کی موجودہ ٹیکنالوجی شمالی کوریا کی جنگی استعداد کار میں اضافہ کر رہا ہے جو کہ حقیقی معنوں میں خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ گزشتہ 20 برسوں سے عالمی برادری کی شمالی کوریا کو جوہری ہتھیار سازی کا سلسلہ ختم کرنے کی کوششوں سے کوئی حوصلہ افزا نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔

ٹلرسن کے مطابق امریکا نے شمالی کورین حکومت کو جوہری ہتھیار سازی ترک کر کے کوئی دوسرا اور متبادل راستہ اپنانے کیلیے 1.35 بلین ڈالر کی مدد بھی فراہم کی تھی۔ امریکا کسی بھی طور پر عسکری تنازع کھڑا کرنا نہیں چاہتا۔ ریکس ٹلرسن کے مطابق بحیرہ جنوبی چین میں مصنوعی جزائر کی تعمیر اور پھر ان پر فوجی ساز و سامان کی تنصیب روس کے 2014 میں کریمیا کو ضم کرنے کے مساوی ہے۔ انھوں نے تجویز کیا کہ ان جزائر تک چین کی رسائی کو محدود کرنا ضروری ہے۔

خبر ایجنسی کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا اپنی ایٹمی طاقت بڑھانے کیلیے تجربات جاری رکھے ہوئے ہے لیکن بیجنگ اسے روکنے میں اپنا کردار ادا نہیں کررہا۔ دوسری طرف جاپان نے اپنے ساحلی شہر اوگا میں کسی بھی شمالی کورین میزائل حملے کی صورت میں حفاظتی تدابیر اپنانے کی مشق کی ہے۔ 3 ہفتے قبل اسی مشرقی جاپانی شہر کی قریبی سمندری حدود میں شمالی کوریا سے داغے گئے آزمائشی میزائل گرے تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here